مربّی کے اوصاف

       جو شخص 'مُربّی' کے منصب پر فائز ہو ، لوگوں کے درمیان وعظ و ارشاد کرتا ہو ، دوسرے اس کی باتیں سننے اور ان پر عمل کرنے کے خواہاں رہتے ہوں اسے اپنے اندر درج ذیل اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے :

1۔اپنا نمونہ پیش کرے

مربی کو چاہیے کہ لوگوں کو جن اچھے کاموں پر ابھارے ، ان پر پہلے خود عمل کرکے دکھائے اور لوگوں کے سامنے اظہار بھی کرے کہ میں جو باتیں کہہ رہا ہوں ان پر خود بھی عمل کرتا ہوں

اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اصحاب کو اہلِ خانہ کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تلقین کی تو ساتھ ہی اپنا نمونہ پیش کیا

 فرمایا :

 خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي( ترمذی : 3۔895)

" تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہتر ہوں اور میں اہلِ خانہ سے برتاؤ کے معاملہ میں تم میں بہتر ہوں "

آپ نے زندگی میں اعتدال اور توازن کی تعلیم دی تو صاف الفاظ میں بیان کیا کہ آپ خود بھی اس پر عمل پیرا ہیں

فرمایا :

أَمَا واللَّهِ إنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وأَتْقَاكُمْ له ، لَكِنِّي أصُومُ وأُفْطِرُ ، وأُصَلِّي وأَرْقُدُ ، وأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ (بخاری : 5063۔)

" لوگو ! اللہ کی قسم  میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہو ، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کرتا ہوں "

2 آسانی پیدا کرے

مربی کو چاہیے کہ لوگوں کے سامنے دین کو آسان بناکر پیش کرے  ان کے دلوں میں یہ بات راسخ کرنے کی کوشش کرے کہ احکامِ دین پر عمل کرنا آسان ہے

رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجا تو فرمایا :

يَسِّرَا ولَا تُعَسِّرَا ، وبَشِّرَا ولَا تُنَفِّرَا (بخاری :43۔41)

" آسانی پیدا کرو ، دشواری پیدا نہ کرو  خوش خبری دو ، متنفّر نہ کرو "

حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں نے آپ سے مختلف مسائل دریافت کیے  ایک نے کہا : میں نے قربانی کرنے سے پہلے حلق کرلیا  آپ نے فرمایا : اب قربانی کرلو ، کوئی حرج نہیں  دوسرے نے سوال کیا : میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی  فرمایا : "اب رمی کرلو  کوئی حرج نہیں " اسی طرح صحابہ نے مناسکِ حج کی تقدیم و تاخیر کے بارے میں بہت سے سوالات کیے  آپ نے ہر ایک کو یہی جواب دیا :

 " افْعَلْ وَلَا حَرَجَ "(بخاری : 83۔)

"کوئی بات نہیں ، ایسا ہی کرلو "

3۔  رجائیت پسند ہو

         مربی کو چاہیے کہ حالات چاہے جتنے سخت ہوں ، ہمیشہ امید افزا بات کرے  

      مکی عہد کے ابتدائی زمانے میں حضرت خبّاب بن ارت رضی اللہ عنہ نے  رسول اللہ ﷺ سے اہلِ ایمان کو دی جانے والی اذیّتوں اور تکالیف کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : " تم سے پہلے کے لوگوں کو اس سے کہیں زیادہ مصائب سے دوچار ہونا پڑا تھا " پھر ارشاد فرمایا :

 واللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هذا الأمْرَ ، حتّى يَسِيرَ الرّاكِبُ مِن صَنْعاءَ إلى حَضْرَمَوْتَ ، لا يَخافُ إلّا اللَّهَ ( بخاری : 3۔612)

" اللہ کی قسم  یہ کام ضرور پورا ہوکر رہے گا ، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا ، لیکن اسے اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہ ہوگا "

         غزوۂ احزاب کے موقع پر مدینہ کے اطراف میں خندق کھودنے میں صحابہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ بھی شریک تھے  ایک بڑی چٹان کسی سے نہیں ٹوٹ رہی تھی  آپ نے اس پر تین ضربیں لگائیں   وہ پاش پاش ہوگئی  ہر مرتبہ اس سے چنگاری نکلی  آپ نے فرمایا :

إِنِّي حِينَ ضَرَبْتُ الضَّرْبَةَ الْأُولَى رُفِعَتْ لِي مَدَائِنُ كِسْرَى وَمَا حَوْلَهَا وَمَدَائِنُ كَثِيرَةٌ، حَتَّى رَأَيْتُهَا بِعَيْنَيَّ ، ثُمَّ ضَرَبْتُ الضَّرْبَةَ الثَّانِيَةَ، فَرُفِعَتْ لِي مَدَائِنُ قَيْصَرَ وَمَا حَوْلَهَا حَتَّى رَأَيْتُهَا بِعَيْنَيَّ ، ثُمَّ ضَرَبْتُ الثَّالِثَةَ، فَرُفِعَتْ لِي مَدَائِنُ الْحَبَشَةِ وَمَا حَوْلَهَا مِنَ الْقُرَى حَتَّى رَأَيْتُهَا بِعَيْنَيَّ   ( نسائی :3۔176)

" پہلی ضرب سے نکلنے والی چنگاری میں مجھے کسریٰ کے محلات اور شہر ، دوسری ضرب سے نکلنے والی چنگاری میں قیصر کے محلات اور شہر اور تیسری ضرب سے نکلنے والی چنگاری میں حبشہ کے محلات  اور شہر دکھائی دیے ہیں "

4۔تذکیر کے مواقع سے فائدہ اٹھائے

       مربی کو چاہیے کہ وہ اپنی بات کہنے کے مواقع تلاش کرے  جب اور جہاں بھی موقع ملے اپنی بات کہہ گزرے  حالات سے فائدہ اٹھائے ، تمثیلات استعمال کرے اور مؤثر انداز میں سامعین کی توجہ اس جانب مبذول کرائے جدھر چاہتا ہے

     ایک جنگ کے بعد قیدیوں میں ایک عورت بھی تھی  ۔ وہ کوئی بھی بچہ پاتی اسے چمٹا لیتی اور دودھ پلانے لگتی  اسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا : " تمھارا کیا خیال ہے؟ کیا یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟" صحابہ نے جواب دیا : " ہرگز نہیں " تب آپ نے فرمایا :

 لَلَّهُ أرْحَمُ بعِبادِهِ مِن هذِه بوَلَدِها (بخاری : 5999)

" اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنی یہ عورت اپنے بچے پر "

        ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے  راستے میں بکری کا ایک بچہ مردہ حالت میں پڑا ہوا تھا  آپ نے فرمایا : " یہ اتنا بے وقعت ہے کہ اس کے مالک نے اسے باہر پھینک دیا ہے " صحابہ نے عرض کیا : " ہاں ، اے اللہ کے رسول! اب اس کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے " آپ نے فرمایا :

فَالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا (ترمذی : 23۔21)

"جتنا یہ اپنے مالک کے لیے بے وقعت ہے اس سے زیادہ دنیا اللہ کے لیے بے وقعت ہے "

5۔خوش گفتار ہو

         مربی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان میٹھی ہو  اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رقصاں رہتی ہو  وہ بولے تو اس کے منھ سے پھول جھڑیں  رسول اللہﷺ نے فرمایا :

تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ ( ترمذی :1956)

" اپنے بھائی کے سامنے تمھارا مسکرانا تمھارے لیے صدقہ ہے "

      متعدد صحابہ نے گواہی دی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو مسکراتا ہوا نہیں دیکھا۔