عظمتِ استاد

لق و دق صحرا گرم ہوا اونچے نیچے ٹیلے ایک درخت کے نیچے اصحاب رسول  ﷺ محفل جمائے محو گفتگو ہیں۔ شمع محفل حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  بھی موجود ہیں۔ اچانک  گرد و غبار کے بادل دکھائی دیتے ہیں۔ چند لمحوں بعد ایک گھڑ سوار گردو غبار کے بادلوں کو چیرتا ہوا جانبِ  محفل آتا دکھائی دیتا ہے۔جونہی قریب پہنچتا ہے۔ نگاہ پڑتے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ  تعظیماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔اصحابِ  رسول ؐ مجسم حیرت بنے دریافت کرتے ہیں  کافر کی یہ تعظیم کیسی ؟؟؟؟ حضرت علی ؓکے حیران کن الفاظ سماعتوں سے ٹکراتے ہیں:

 "یہ وہ شخص ہے کہ جس نے قبول اسلام سے پہلے مجھے ایک لفظ سکھایا تھا۔" اس عظیم شخصیت کے یہ الفاظ تاریخ میں ثبت ہو گئے۔"جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے مجھے بیچے یا آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے "

السلام علیکم ورحمۃ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ بغداد کی جامع مسجد میں  آواز گونجتی ہے۔ امام سلام پھیرتا ہے۔ مقتدی پیروی کرتے ہیں۔ دعا اور سنتوں کی ادائیگی کے بعد لوگ جوق در جوق واپسی کی راہ تک رہے ہیں۔ اس مجمع میں بادشاہ وقت بھی شامل ہے۔ شہزادے اور انکے استاد محترم بھی۔۔۔ اچانک ایک عجیب منظر نگاہوں کے سامنے وا ہوتا ہے ۔دونوں شہزادے باہم متصادم ہیں  اور وجہ تنازع استاد محترم کے جوتے ہیں۔ بادشاہ وقت خلیفہ ہارون رشید اسی اثناء میں باہر تشریف لاتا ہے۔ چشم کشاء منظر دیکھ کر گرجتا ہے۔ "دونوں استاد محترم کا ایک ایک جوتا اٹھا لو" اگلے دن دربار سجتا ہے ۔ بادشاہ وقت سوال کرتا ہے۔ آج کے دن سب سے زیادہ معزز کون ہے۔ درباری جواب دیتے ہیں۔ آپ سے زیادہ معزز اور کون ہوسکتا ہے۔ صدا بلند ہوتی ہے۔ نہیں بلکہ آج سب سے زیادہ معزز وہ ہے جس کی جوتیاں اٹھانے کیلئے بادشاہ وقت کے بیٹے جھگڑتے ہیں۔

ایک اور منظر ملاحظہ کیجیے۔ اپنے وقت کا بہترین سپہ سالار و حکمران مسند اقتدار پر جلوہ فرما ہے۔ درباری تعظیم بجا لاتے ہیں۔ سوالی اجازت طلب کرنے کے بعد دریافت کرتا ہے۔ "اے شہنشاہ اعظم،  آپ استاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ چند لمحوں کو دربار میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ اس سکوت کو توڑتی ایک رعب دار آواز بلند ہوتی ہے۔"باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور میرا  ا  ستاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ باپ سبب حیات فانی اور استاد سبب حیات جاودانی ہے۔ باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی۔۔ جی ہاں اگر آپ پہچاننے میں غلطی نہیں کر رہے تو یہ اپنے وقت کے عظیم حکمران سکندر اعظم ہیں جنہیں دنیا الیگزینڈر دی گریٹ کے نام سے جانتی ہے۔

اگر سکت ہے تو یہ منظر بھی دیکھ لیجیے۔شہنشاہ وقت کے صاحبزادے علم وادب کی تعلیم حاصل کرنےکے لئے درس گاہ پہنچتے ہیں۔استاد محترم تشریف لاتے ہیں۔ علم و تعلم میں کچھ وقت گزرنے کےبعد استاد کو وضو کی حاجت ہوتی ہے۔ شاگرد پانی ڈالتا ہے۔اسی اثناء میں جبکہ وضو مکمل ہونے کو ہے۔ شہنشاہ وقت کا گزر ہوتا ہے، نگاہیں اس منظر کو دیکھتی ہیں اور برہمی کی حالت میں شہنشاہ کی تعظیم سے لبریز آواز بلند ہوتی ہے۔ "میں نے اس کو آپ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ آپ اسکو آداب سکھائیں گے۔ آپ نے اسے یہ حکم کیوں نہ دیا ۔کہ ایک ہاتھ سے پانی گرا دے اور دوسرے سے پاؤں دھو ڈالے … "

چشم کشاء مناظر کی طویل فہرست ہے۔ جس کی ایک ادنی جھلک پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ تاریخ کھنگال لیجیے ، دنیا کی امام عظیم ریاستوں، حکمرانوں اور شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کیجیے۔ آپ کو ان سب میں ایک قدر مشترک نظر آئے گی۔ اور وہ ہے تعلیم و معلم دوستی اور قدر دانی کی عظیم روایت۔ اسلام کئی دہائیوں تک سپر پاور رہا تو اسکی وجہ مسلم حکمرانی کی علم دوستی اور معلم کی قدردانی تھی۔ علم کو اس قدر فروغ اور معلم کو وہ رتبہ دیا گیا ۔ جس کا وہ حقدار تھا۔

آج کی جدید دنیا اور انسان اگر  کائنات کی پہنائیوں تک پہنچ پایا ہے اور دوسری کائنات ارض و سماء کی پر کمندیں ڈال رہا ہے تو اسکی وجہ ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرنے والے عظیم مسلم حکمران ہیں۔ جن کی بدولت ابتدائی دنیا حقیقی معنوں میں علم وامن کا گہوارا بنی۔ جب تک مسلم حکمران علم و تعلم کی سرپرستی کرتے رہے۔ اندلس بغداد، قاہرہ،دمشق اور مسلم ریاستیں علم و فن کا مرکز بنی رہیں۔ دنیا میں انکی سطوت کے پرچم لہراتے رہے۔ اور مسلم تہذیب و تمدن کا طوطی بولتا رہا۔ لیکن جوں جوں مسلمانوں میں دیگر اخلاقی عوارض کیساتھ علم و معلم کی قدر دانی گھٹتی چلی گئی توں توں اقتدار کی گرفت بھی ڈھیلی پڑتی گئی اور قوت و اقتدار کی جگہ ذلت و رسوائی نے لے لی۔

اگلا دور اگر تھا تو وہ یورپ کا تھاکہ جس نے مسلمانوں سے اس علم کو سیکھا۔ اس کی ناقدری کا خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے علم و معلم دوستی کو زاد راہ بناکر جہالت کے اندھیروں کو دور بھگایا۔ نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ علم و معلم دوستی کی بنیاد پر جدید یورپ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یورپ اور امریکہ اس ہتھیار کی بدولت دنیا کی کنجیوں کے مالک ٹھہرے۔ہم علم و معلم کی ناقدری کی بنیاد پر مغلوب ہوتے چلے گئے۔ہم نےاپنی سنہری تارخ کا وہ سبق بھلا دیا۔ کہ کسطرح طالبعلموں(رضوان اللہ علیہم اجمعین) نےمعلم ( صل اللہ علیہ وسلم) کی قدر دانی کی۔ اور بے سروسامانی کے باوجود دنیا پر چھاتے چلے گئے۔ رب کائنات نے کئی گنا بڑے دشمن پر انکی دھاک بٹھا دی۔یہ اصحاب چار دانگ عالم کے بادشاہ تسلیم کئے گئے۔ وقت گزرتا گیا۔ غلامی کی زنجیریں مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم  اور سید مودودی ؒ جیسے نابغۂ روزگارنگینے مسلمانوں میں ابھرے جنہوں نے امت کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے ان کی توجہ علم وتعلم کی جانب مبذول کروائی۔

وقت گزرتا رہتا ہے۔ مگر استاد کا مقام و احترام اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اس تیزی سے بدلتے وقت نے ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ جو معاشرتی تباہی کا سبب ہیں۔ انہیں میں سے ایک استاد کا احترام نہ کرنا ہے۔ اگر اپنے بزرگوں سے اساتذہ اور شاگردوں کا حال دریافت کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ استاد کا احترام کیا ہوتا ہے۔جواب ملتا ہےکہ علم حاصل کرنے  کا شوق تو انکے دور میں ہوا کرتا تھا۔ جہاں استاد کا ایک مقام و مرتبہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن جب نگاہ آج کے پاکستان پر پڑتی تو حزن و ملال کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جہاں تعلیم،  کاروبار، استاد کو ایک ذاتی ملازم اور طالبعلم کو گاہک بنا دیا گیاہے۔ تعلیمی ادارے ایک کمرشل حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

مادیت پسندی کی انتہا یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بھی ایک بے بس اور معمولی تنخواہ دار ملازم بنا دیا گیاہے۔کہ جن کے ہاتھ سرکار کے ساتھ ساتھ نوخیز اور نوجوان نسل کے سامنے بھی باندھ کر رکھ دیے گئے ہیں کہ جو جی میں آئے کریں۔ کوئی تہذیب سکھانے والا، روک ٹوک اور پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔

حکومتوں کی کیفیت یہ ہے کہ انہوں نے سب سےکم توجہ کا مستحق شعبۂ تعلیم کو گردانا ہے۔ یہیں پربس نہیں بلکہ سب سے کم بجٹ بھی شعبۂ تعلیم کیلئے مختص کیا جاتا ہے۔ اساتذہ کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان کی تقرریا ں بھی سیاسی مداخلت، سفارش، رشوت اور پرچی سسٹم کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ کم علم ، سرمایہ دار اور کاروباری ذہنیت کے حامل افراد کے ہاتھ محکمہ تعلیم کی باگ ڈور تھما دی جاتی ہے۔ جو تعلیم کی ا،ب سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ کیا یہ معاشرتی تباہی کی ایک بری مثال نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے۔کہ اپنے ان مجموعی رویوں کو تبدیل کیا جائے۔ صحیح معنوں میں علم و ہنر کی سرپرستی کی جائےاور استاد کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دیا جائے۔ تاکہ ایک روشن مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔اور اقوام عالم کے درمیان ہم نمایاں مقام حاصل کر سکیں۔