یوں تو پچھلے سال کا موسم بھی کچھ اچھا نہ تھا

یوں تو پچھلے سال کا موسم بھی کچھ اچھا نہ تھا
زہر بستی کی فضا میں اس قدر پھیلا نہ تھا


اس قدر سرخی نہ تھی رنگ شفق میں دوستو
آسماں کا رنگ پہلے یوں کبھی گدلا نہ تھا


میں نہ کہہ پایا تو کیا تجھ سے نہ بن پایا تو کیا
میں نہ تھا کوئی بھکاری تو کوئی داتا نہ تھا


رات دن کی سرحدوں میں اب نہیں ہوتی تمیز
وہ بھی کیا دن تھے کہ دن کاٹے کبھی کٹتا نہ تھا


ہم تو اپنے درد سے ہارے صدا دیتے رہے
بے حسی کے گنبدوں میں کوئی دروازہ نہ تھا