بہتر نہیں رہا کبھی کمتر نہیں رہا
بہتر نہیں رہا کبھی کمتر نہیں رہا میں زیست میں کسی کے برابر نہیں رہا دشت فراق دھوپ غضب کی سفر نصیب سایہ بھی اس کی یاد کا سر پر نہیں رہا اس عہد سخت گیر میں یہ چھوٹ ہے بہت باہر پھرا ہے تو کبھی اندر نہیں رہا آزاد ہو گیا ہوں حکومت کی قید سے اس ملک میں مرا کوئی دفتر نہیں رہا میں ہوں ...