شجر کی شاخ سے جھولا اتر بھی سکتا ہے

شجر کی شاخ سے جھولا اتر بھی سکتا ہے
ترے بغیر یہ ساون گزر بھی سکتا ہے


سمیٹ رکھا ہے اپنا وجود خود میں نے
یہ آئنہ جو گرا تو بکھر بھی سکتا ہے


کبھی کبھی ہمیں ملنے کا اذن دے کر وہ
ہماری ذات پہ احسان کر بھی سکتا ہے


تماشہ یوں نہ دکھا اپنی بے نیازی کا
ہمارے صبر کا پیمانہ بھر بھی سکتا ہے


وہ جس کو دعویٰ ہے طوفاں کا رخ بدل دے گا
کبھی کبھی کسی آندھی سے ڈر بھی سکتا ہے


کہا تھا اس نے کہ ملنے ضرور آئے گا
مگر وہ وعدے سے اپنے مکر بھی سکتا ہے


بڑے سلیقے سے سب کو سنبھال رکھا ہے
ذرا سی چوک سے کنبہ بکھر بھی سکتا ہے


دعائیں مانگتی رہتی ہوں روز و شب رب سے
اگر وہ چاہے مقدر سنور بھی سکتا ہے