نئے رشتوں سے تو دل کا مکاں آباد کرتا ہے
نئے رشتوں سے تو دل کا مکاں آباد کرتا ہے
خبر بھی ہے تجھے اک شخص تجھ کو یاد کرتا ہے
نہ جانے کیوں ضدیں ایسی دل ناشاد کرتا ہے
جسے میں بھولنا چاہوں اسی کو یاد کرتا ہے
مہک تیری تجھے تسلیم کروا لے تو کافی ہے
اے میرے پھول تو رنگوں کو کیوں برباد کرتا ہے
بدلتا ہے مری زنجیر پنجرہ بھی بدلتا ہے
مگر آزاد کب مجھ کو مرا صیاد کرتا ہے
پرندہ بھول بیٹھا خود ہی جب پرواز کے معنیٰ
کرم فرما بتا اب کیوں اسے آزاد کرتا ہے
مقرر ہے خزاں کا ایک دن ہر حال میں نکہتؔ
بھلا گلدان میں یہ پھول کیوں فریاد کرتا ہے