بکھرے بکھرے دن ہوتے ہیں راتیں جاگا کرتی ہیں

بکھرے بکھرے دن ہوتے ہیں راتیں جاگا کرتی ہیں
گلیاں تھک کر سو جاتی ہیں سڑکیں جاگا کرتی ہیں


غصہ شوخی عادت قصے سب پیچھے چھٹ جاتا ہے
لوگ چلے جاتے ہیں ان کی باتیں جاگا کرتی ہیں


جب سے محبت ہوتی ہے اس میں دم اٹکا رہتا ہے
جسم بکھر جاتا ہے لیکن آنکھیں جاگا کرتی ہیں


وصل کے لمحوں میں سارے لفظ اور زباں سو جاتے ہیں
کمرے کی تنہائی میں بس سانسیں جاگا کرتی ہیں


بیٹے آوارہ گردی میں رہتے ہیں مشغول مگر
نا لائق بیٹوں کی خاطر مائیں جاگا کرتی ہیں