تجھے میں نے پا کے جو کھو دیا یہ مرے نصیب کی چال ہے
تجھے میں نے پا کے جو کھو دیا یہ مرے نصیب کی چال ہے
مرے چارہ گر تجھے کیا خبر کہ بچھڑنا کتنا محال ہے
کسی غیر سے مری خیریت ترا پوچھنا بھی تو کم نہیں
مجھے یہ یقین تو ہو گیا تجھے اب بھی میرا خیال ہے
اٹھے زلزلے چلیں آندھیاں یہ چراغ پھر بھی نہیں بجھا
یہ کرم نہیں کسی اور کا تری رحمتوں کا کمال ہے
ہے عجیب موڑ پہ زندگی نہ تو غم رہا نہ خوشی رہی
نہ غرور ہے نہ سرور ہے نہ عروج ہے نہ زوال ہے
تری بے وفائی بھلا تو دوں مگر اس خیال کا کیا کروں
مرے بس میں کچھ بھی نہیں رہا مرے دل کے شیشے میں بال ہے
کہیں تتلیوں کا پتہ نہیں کہ پرندہ کوئی بچا نہیں
وہی پھول ہیں وہی خار ہیں وہی پیڑ ہے وہی ڈال ہے
وہ بچھڑ کے جینے کا فیصلہ تو مجھے بجھا کے چلا گیا
نہ یقین ہے نہ گمان ہے نہ مرے لبوں پہ سوال ہے
یہاں ہر طرف ہیں نمائشیں نہ دلوں کا چین نہ راحتیں
نہ وہ سادگی نہ وہ دل کشی نہ وہ حسن ہے نہ جمال ہے
نہ وہ خواب آنکھوں میں اونگھتے نہ وہ رات جگنے کے سلسلے
نہ وہ جنگلوں کی کہانیاں نہ وہ وحشتوں کا غزال ہے