شب سیاہ ہے ندی کے پاس بیٹھے ہیں

شب سیاہ ہے ندی کے پاس بیٹھے ہیں
کسی کی یاد میں تنہا اداس بیٹھے ہیں


گزر رہے ہیں مناظر نظر کے آگے سے
سبھی سے چھپتے ہوئے بد حواس بیٹھے ہیں


جگے ستاروں کی محفل اجڑنے والی ہے
ادھر پہن کے اندھیرے لباس بیٹھے ہیں


ہمارے بعد اسے کون ہے جو سنتا ہو
فریب کھا کے بھی ہم اس کے پاس بیٹھے ہیں


یہی مقام تھا آخر میں عشق والوں کا
غموں سے دور کہیں غم شناس بیٹھے ہیں