قومی زبان

چاہا بہت مگر کسی عنواں نہ کر سکے

چاہا بہت مگر کسی عنواں نہ کر سکے ایماں کو کفر کفر کو ایماں نہ کر سکے افسوس کوئی کار نمایاں نہ کر سکے قطرہ کو موج موج کو طوفاں نہ کر سکے ممکن نہیں کہ ہمت مرداں نہ کر سکے وہ کام کون سا ہے جو انساں نہ کر سکے ناموس عاشقی کا جنوں میں بھی تھا لحاظ ہم چاک فصل گل میں گریباں نہ کر سکے تم ...

مزید پڑھیے

اے کاشف اسرار بتا ہے کہ نہیں ہے

اے کاشف اسرار بتا ہے کہ نہیں ہے کہتے ہیں جسے لوگ خدا ہے کہ نہیں ہے دنیا میں بھلائی کا صلہ ہے کہ نہیں ہے انجام برائی کا برا ہے کہ نہیں ہے محسوس تو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا اس سوچ میں ڈوبا ہوں خدا ہے کہ نہیں ہے کیوں ہم کو ڈراتا ہے کوئی روز جزا سے خود اپنی جگہ زیست سزا ہے کہ نہیں ...

مزید پڑھیے

اسی کو ہاں اسی کو عشق کا نذرانہ کہتے ہیں

اسی کو ہاں اسی کو عشق کا نذرانہ کہتے ہیں سرشک غم کو یعنی گوہر یک دانہ کہتے ہیں ہنسی آتی ہے مستوں کو جنوں نا آشناؤں پر کرے جو ہوش کی باتیں اسے دیوانہ کہتے ہیں کسی کو غم کسی کا ہے کسی کو غم کسی کا ہے بعنوان دگر سب ایک ہی افسانہ کہتے ہیں اٹھا دے گی انہیں دنیا کسی دن اپنے ہاتھوں ...

مزید پڑھیے

عشق میں جو ہمہ تن دل نہیں ہونے پاتے

عشق میں جو ہمہ تن دل نہیں ہونے پاتے درخور جذبۂ کامل نہیں ہونے پاتے جو تری بزم میں شامل نہیں ہونے پاتے وہ کسی بزم میں داخل نہیں ہونے پاتے جادۂ شوق میں حائل نہیں ہونے پاتے مرحلے سخت بھی مشکل نہیں ہونے پاتے ہر نفس ذکر ترا لب پہ رہا کرتا ہے ہم تری یاد سے غافل نہیں ہونے پاتے حاصل ...

مزید پڑھیے

تری صورت سے میرے دل کی حیرانی نہیں جاتی

تری صورت سے میرے دل کی حیرانی نہیں جاتی کہ یہ پہچان لینے پر بھی پہچانی نہیں جاتی برنگ شمع سوزاں شعلہ سمانی نہیں جاتی پس پردہ بھی تیری شان عریانی نہیں جاتی دل ناکام ارماں کی پریشانی نہیں جاتی کہ جیسے تشنہ لب کی پیاس بے پانی نہیں جاتی یقیں عاجز ہے تجھ سے کیا ٹھکانا تیری ہستی ...

مزید پڑھیے

ہو گئے ہیں اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہم

ہو گئے ہیں اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہم سنتے سنتے سو گئے ہیں زیست کا افسانہ ہم دل نظر احساس سب کچھ ان پہ قرباں کر چکے پیش کرنے کے لیے اب لائیں کیا نذرانہ ہم اک نظر میں بے نیاز جام و صہبا کر دیا کیوں نہ تیرا دم بھریں اے نرگس مستانہ ہم شوق سے ڈھائے ستم کوئی ہماری جان پر ہاں اٹھائیں ...

مزید پڑھیے

اپنے مقصد میں یہ ناکام ہوئی جاتی ہے

اپنے مقصد میں یہ ناکام ہوئی جاتی ہے زندگی موت کا پیغام ہوئی جاتی ہے بے کراں تلخیٔ آلام ہوئی جاتی ہے جاوداں گردش ایام ہوئی جاتی ہے ابتدا صورت انجام ہوئی جاتی ہے ہر سحر میرے لئے شام ہوئی جاتی ہے چیز جو خاص تھی وہ عام ہوئی جاتی ہے عاشقی مفت میں بدنام ہوئی جاتی ہے عشق میں نالہ و ...

مزید پڑھیے

قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا

قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا لطف دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر میں تھا حرف بے کار تھا جو کچھ مری تقدیر میں تھا حل ہر اک عقدۂ دشوار کا تدبیر میں تھا میری تقصیر نے انسان بنایا مجھ کو میری اصلاح کا پہلو مری تعزیر میں تھا اب سزاوار فنا کوئی بنا لے ورنہ مدعا زیست کا مضمر مری ...

مزید پڑھیے

کیسے کیسے ستم اٹھائے ہیں

کیسے کیسے ستم اٹھائے ہیں زخم کھا کر بھی مسکرائے ہیں اشک آنکھوں میں ڈبڈبائے ہیں یا ستارے سے جھلملائے ہیں آپ جب بھی چمن میں آئے ہیں گل تو گل خار مسکرائے ہیں کیوں نہ جانے یہ دل میں آتا ہے آپ اپنے نہیں پرائے ہیں کوئی اپنا مزاج داں نہ ملا ہم نے خود اپنے ناز اٹھائے ہیں جنہیں ...

مزید پڑھیے

محبت کا تجھے عرفان بھی ہے

محبت کا تجھے عرفان بھی ہے محبت کفر بھی ایمان بھی ہے تضاد حضرت انساں نہ پوچھو فرشتہ بھی ہے یہ شیطان بھی ہے یہی ثابت ہوا ہے زندگی سے جو دانا ہے وہی نادان بھی ہے بہت بے ربط ہے روداد ہستی اس افسانے کا کچھ عنوان بھی ہے اسی کا زندگی ہے نام شاید کچھ الجھن بھی کچھ اطمینان بھی ہے نہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 587 سے 6203