ہو گئے ہیں اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہم

ہو گئے ہیں اپنے گرد و پیش سے بیگانہ ہم
سنتے سنتے سو گئے ہیں زیست کا افسانہ ہم


دل نظر احساس سب کچھ ان پہ قرباں کر چکے
پیش کرنے کے لیے اب لائیں کیا نذرانہ ہم


اک نظر میں بے نیاز جام و صہبا کر دیا
کیوں نہ تیرا دم بھریں اے نرگس مستانہ ہم


شوق سے ڈھائے ستم کوئی ہماری جان پر
ہاں اٹھائیں گے کسی کے ناز معشوقانہ ہم


مجرم الفت ہیں اپنے جرم کا اقرار ہے
جو بھی کہیے گا کریں گے پیش وہ جرمانہ ہم


احتیاج ساقی و صہبا بھی ہو کیوں ہم نشیں
خود بھریں گے آج اپنی عمر کا پیمانہ ہم


کیا عجب گبر و مسلماں کا وطیرہ دیکھ کر
ہو گئے ہیں بے نیاز کعبہ و بت خانہ ہم


جس قدر ارماں تھے دل میں دل سے رخصت ہو گئے
اپنے پہلو میں لیے پھرتے ہیں اب ویرانہ ہم


سر بکف ہو کر کریں گے ہر بلا کا سامنا
شرم رکھیں گے تری اے ہمت مردانہ ہم


سچ بتا بے عذر ہم سا بھی کہیں دیکھا کوئی
جب کہا دیوانہ تو نے ہو گئے دیوانہ ہم


شمع روشن میں کشش اپنے لئے طالبؔ کہاں
شمع کشتہ ہو تو ہیں جی جان سے پروانہ ہم