تری صورت سے میرے دل کی حیرانی نہیں جاتی

تری صورت سے میرے دل کی حیرانی نہیں جاتی
کہ یہ پہچان لینے پر بھی پہچانی نہیں جاتی


برنگ شمع سوزاں شعلہ سمانی نہیں جاتی
پس پردہ بھی تیری شان عریانی نہیں جاتی


دل ناکام ارماں کی پریشانی نہیں جاتی
کہ جیسے تشنہ لب کی پیاس بے پانی نہیں جاتی


یقیں عاجز ہے تجھ سے کیا ٹھکانا تیری ہستی کا
کہیں سمجھی نہیں جاتی کہیں جانی نہیں جاتی


خطا ہونے سے میری آبرو میں فرق آتا ہے
سزا دینے سے تیری شان رحمانی نہیں جاتی


بنے کیا خاک دنیائے تصور رنگ و روغن سے
یہاں بہزاد اور مانی کی بھی مانی نہیں جاتی


خلش سی اک ہے دل میں آنکھ میں اشک ندامت ہیں
گنہ گاروں کی اس پر بھی پشیمانی نہیں جاتی


دعا اک لفظ بے معنی عمل اک سعئ لا حاصل
اگر تدبیر سے تحریر پیشانی نہیں جاتی


فنا ہوتے نہیں انساں کے جوہر تیرہ بختی میں
شب تاریک میں تاروں کی تابانی نہیں جاتی


نہیں مرتے جو اپنی آن کے صدقے اترتے ہیں
شہیدوں کی کبھی بیکار قربانی نہیں جاتی


کہاں جمعیت خاطر ریاض دہر میں طالبؔ
مثال بوئے گل اپنی پریشانی نہیں جاتی