قومی زبان

داغ جلتا ہے مرے سینے میں

داغ جلتا ہے مرے سینے میں دل پگھلتا ہے مرے سینے میں شیشہ و سنگ مقابل آئے کچھ چٹختا ہے مرے سینے میں رات بھر راز خرد سر جنوں دل اگلتا ہے مرے سینے میں تیرا خط ہے کہ قلم ہے میرا کچھ تو جلتا ہے مرے سینے میں اس لیے دشت سے مانوس ہوں میں شہر بستا ہے مرے سینے میں بانٹتے رہتے ہیں وہ لعل و ...

مزید پڑھیے

دل تڑپ کر بہل گیا شاید

دل تڑپ کر بہل گیا شاید شوق پھر سے مچل گیا شاید کیوں دریچے پکارتے ہیں مجھے پھر سے موسم بدل گیا شاید ہوش انگڑائی لے کے جاگ اٹھا وصل کا چاند ڈھل گیا شاید تیر جو آخری تھا ترکش میں اپنے ہی دل پہ چل گیا شاید آ رہی ہے ندائے گریۂ سنگ کوئی گر کر سنبھل گیا شاید

مزید پڑھیے

ابھی تو آنکھوں میں نا دیدہ خواب باقی ہیں

ابھی تو آنکھوں میں نا دیدہ خواب باقی ہیں جو وقت لکھ نہیں پایا وہ باب باقی ہیں سزا جو اگلے صحیفوں میں تھی تمام ہوئی مگر صحیفۂ دل کے عذاب باقی ہیں کرو گے جمع بھلا کیسے دل کے شیشوں کو ابھی تو دشت فلک میں شہاب باقی ہیں اڑا کے لے گئی آندھی وہ حرف حرف کتاب جو صفحہ صفحہ ہیں دل کے سراب ...

مزید پڑھیے

فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے

فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے صبا کے لمس سے پھولوں کا رنگ مہکے ہے ادائے نیم نگاہی بھی کیا قیامت ہے کہ بن کے پھول وہ زخم خدنگ مہکے ہے یہ وحشتیں بھی مری خوشبوؤں کا حصہ ہیں کہ مرے خون سے دامان سنگ مہکے ہے ادائے ناز بھی ہے حسن و اہتزاز کی بات کہ تار زلف نہیں انگ انگ مہکے ہے لہو کے ...

مزید پڑھیے

وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا

وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا وہ خستہ جاں ہی کبھی آئینہ قماش بھی تھا لہو کے پھول رگ جاں میں جس سے کھلتے تھے وہی تو شیشۂ دل تھا کہ پاش پاش بھی تھا بکھر گئی ہیں جہاں ٹوٹ کر یہ چٹانیں یہیں تو پھول کوئی صاحب فراش بھی تھا اٹھائے پھرتا تھا جس کو صلیب کی صورت وہی وجود تو خود اس ...

مزید پڑھیے

ہے فیض عام پر سائل کہاں ہے

ہے فیض عام پر سائل کہاں ہے لہو گرنے کو ہے قاتل کہاں ہے طلسم دشت کا مارا ہے مجنوں سراب چشم ہے محمل کہاں ہے طلب کی انتہا ہی ابتدا ہے نظر آتی ہے جو منزل کہاں ہے ستاروں سے بھی آگے آ گئی ہوں میری پرواز کا حاصل کہاں ہے گل نرگس نے پوچھا رات مجھ سے تری آنکھوں میں تھا جو تل کہاں ہے میں ...

مزید پڑھیے

اب تیغ کی باتیں ہیں نہ تلوار کی باتیں

اب تیغ کی باتیں ہیں نہ تلوار کی باتیں کرتے نہیں دیوانے بھی اب دار کی باتیں ہر ہاتھ مسیحا ہے تو ہر گود ہے مریم بیمار سمجھ لیتے ہیں بیمار کی باتیں کہتے ہیں مگر غیر سے افسانۂ جاناں جاناں سے کیے جاتے ہیں اغیار کی باتیں آداب رفاقت سے شناسا ہوئی جب سے بلبل نے عقیدت سے سنی خار کی ...

مزید پڑھیے

قفس جسم و جاں میں قید رہے

قفس جسم و جاں میں قید رہے اپنے ہی آشیاں میں قید رہے آرزوئے مکان سے چھوٹے خواہش لا مکاں میں قید رہے نالۂ عندلیب و نغمۂ گل کیوں بہار و خزاں میں قید رہے خواب آنکھوں سے ہو گئے اوجھل دل کی چشم نہاں میں قید رہے سوز اور ساز عقل و دل طلعتؔ سینۂ عاشقاں میں قید رہے

مزید پڑھیے

بزم جاں پھر نگۂ توبہ شکن مانگے ہے

بزم جاں پھر نگۂ توبہ شکن مانگے ہے لمس شعلے کا تو خوشبو کا بدن مانگے ہے قد و گیسو کی شریعت کا وہ منکر بھی نہیں اور پھر اپنے لیے دار و رسن مانگے ہے رقص کاکل کے تصور کی یہ شیریں ساعت شب کے پھولوں سے مہکتا ہوا بن مانگے ہے ٹوٹتے ہیں تو بکھر جاتے ہیں مٹی کے حروف زندگی جن سے چراغوں کا ...

مزید پڑھیے

مری غزل جو نئے ساز سے عبارت ہے

مری غزل جو نئے ساز سے عبارت ہے مرے نفس مری آواز سے عبارت ہے کھٹک رہا ہے جو نشتر جراحت دل میں فریب نرگس طناز سے عبارت ہے حقیقتوں کو فسانہ بنا دیا جس نے یہ سحر بھی ترے اعجاز سے عبارت ہے قفس بھی جیسے دریچہ ہے دل کے زنداں کا نفس بھی لذت پرواز سے عبارت ہے مرے لہو کی یہ گردش اسی کا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 583 سے 6203