داغ جلتا ہے مرے سینے میں

داغ جلتا ہے مرے سینے میں
دل پگھلتا ہے مرے سینے میں


شیشہ و سنگ مقابل آئے
کچھ چٹختا ہے مرے سینے میں


رات بھر راز خرد سر جنوں
دل اگلتا ہے مرے سینے میں


تیرا خط ہے کہ قلم ہے میرا
کچھ تو جلتا ہے مرے سینے میں


اس لیے دشت سے مانوس ہوں میں
شہر بستا ہے مرے سینے میں


بانٹتے رہتے ہیں وہ لعل و گہر
گھن برستا ہے مرے سینے میں


چوڑیاں کھنکی ہیں پھر رات گئے
حسن سجتا ہے مرے سینے میں


پھر خزاں میں کھلا باغی غنچہ
دل لرزتا ہے مرے سینے میں


اسم ساقی وہی اسم اعظم
کون جپتا ہے مرے سینے میں


دل مرا قرۃ و منصور کا نام
لے کے چلتا ہے مرے سینے میں


بے خودی اور خودی کا تاگا
جا الجھتا ہے مرے سینے میں


بادہ سقراطؔ وہاں پیتا ہے
دم نکلتا ہے مرے سینے میں


بادہ سقراطؔ سے طلعتؔ کو ملا
سچ پنپتا ہے مرے سینے میں