ہے فیض عام پر سائل کہاں ہے

ہے فیض عام پر سائل کہاں ہے
لہو گرنے کو ہے قاتل کہاں ہے


طلسم دشت کا مارا ہے مجنوں
سراب چشم ہے محمل کہاں ہے


طلب کی انتہا ہی ابتدا ہے
نظر آتی ہے جو منزل کہاں ہے


ستاروں سے بھی آگے آ گئی ہوں
میری پرواز کا حاصل کہاں ہے


گل نرگس نے پوچھا رات مجھ سے
تری آنکھوں میں تھا جو تل کہاں ہے


میں آئینوں میں گھر کر رہ گئی ہوں
مرا چہرہ تو ہے پر دل کہاں ہے