دل تڑپ کر بہل گیا شاید

دل تڑپ کر بہل گیا شاید
شوق پھر سے مچل گیا شاید


کیوں دریچے پکارتے ہیں مجھے
پھر سے موسم بدل گیا شاید


ہوش انگڑائی لے کے جاگ اٹھا
وصل کا چاند ڈھل گیا شاید


تیر جو آخری تھا ترکش میں
اپنے ہی دل پہ چل گیا شاید


آ رہی ہے ندائے گریۂ سنگ
کوئی گر کر سنبھل گیا شاید