قومی زبان

نہیں روزے سے ہیں تو کیا اداکاری تو کرنی ہے

نہیں روزے سے ہیں تو کیا اداکاری تو کرنی ہے امیر شہر کی دعوت ہے افطاری تو کرنی ہے کہاں ہے شیروانی اور ٹوپی لائیے بیگم ابھی دن ہے مگر پہلے سے تیاری تو کرنی ہے ابھی باقی ہے کچھ لوگوں میں جو ایمانداری کی کسی بھی طرح سے وہ دور بیماری تو کرنی ہے کسی بھی طرح رشوت دے کے پکی نوکری کر ...

مزید پڑھیے

ڈر مجھے بھی لگتا ہے کم نظر زمانے سے

ڈر مجھے بھی لگتا ہے کم نظر زمانے سے کیا کروں نہ مانے جب دل مرا منانے سے جل اٹھا تھا پل بھر کو آپ کی عنایت سے بجھ گیا چراغ دل آپ کے بجھانے سے وہ تو لاابالی ہے کیا اسے خبر ہوگی ہم پہ کیا گزرتی ہے حال دل چھپانے سے برہمی میں چہرے کو کیوں بگاڑ رکھا ہے یہ حسین لگتا ہے صرف مسکرانے ...

مزید پڑھیے

جن کے پاؤں بھی نہیں ہیں ان کو سر کہتے ہیں لوگ

جن کے پاؤں بھی نہیں ہیں ان کو سر کہتے ہیں لوگ کیا زمانہ ہے کہ پودوں کو شجر کہتے ہیں لوگ ایک آنسو بھی نہ ٹپکا آج تک جس آنکھ سے کیا قیامت ہے اسی کو چشم تر کہتے ہیں لوگ اب زمانے کی کسوٹی کا یہی معیار ہے سیپ سے نکلا نہیں پھر بھی گہر کہتے ہیں لوگ مصلحت کی بیڑیوں میں جب سے جکڑی ہے ...

مزید پڑھیے

دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا

دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں وہ جنہیں کاتب ...

مزید پڑھیے

اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ یعنی تعلقات عبوری بناؤں گا تجھ کو خبر نہ ہوگی کہ میں آس پاس ہوں اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا رنگوں پہ ...

مزید پڑھیے

میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی

میں نے جو راہ لی دشوار زیادہ نکلی میرے اندازے سے ہر بار زیادہ نکلی کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی یہ مری موت کے اسباب میں لکھا ہوا ہے خون میں عشق کی مقدار زیادہ نکلی کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی

مزید پڑھیے

وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک

وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک لیا جائے گا آخر کار ہم سے امتحاں کب تک اٹھا کرتا رہے گا یوں نشیمن سے دھواں کب تک ہمارے آشیانوں پر گریں گی بجلیاں کب تک ضمیر اہل سیاست کا بھلا کس روز جاگے گا جلے گا نفرتوں کی آگ میں ہندوستاں کب تک نہ سمجھاؤ ہمیں منشور اپنے بس یہ بتلا ...

مزید پڑھیے

قلب ویران سے رنگین غزل مانگے ہے

قلب ویران سے رنگین غزل مانگے ہے کیسی دنیا ہے جو صحرا سے کنول مانگے ہے زندگی اب تو ہر اک لمحہ خدا جانے کیوں مجھ سے پیچیدہ سوالات کے حل مانگے ہے یہ نئی طرز سیاست یہ زبوں حالی اب ہم سے ماتھے پہ کچھ افکار کے بل مانگے ہے جب سے آوارہ مزاجی کو قرار آیا ہے تیری آغوش میں گزرے ہوئے پل ...

مزید پڑھیے

جگنو کے ساتھ ساتھ ہی مہتاب بھی تو ہیں

جگنو کے ساتھ ساتھ ہی مہتاب بھی تو ہیں ہم دریا برد گوہر نایاب بھی تو ہیں یوں ہی نہیں ہیں لعل و گہر اپنے ہاتھ میں دریا کے ہم وجود میں غرقاب بھی تو ہیں تم کو تو صرف موجوں پہ حاصل ہے برتری دریا کوئے یار میں گرداب بھی تو ہیں جائز ہیں بے قراریاں لیکن جناب دل اس کی نوازشوں کے کچھ آداب ...

مزید پڑھیے

جہاں کو بانٹ کر خوشیاں جو مسکانوں میں رہتے تھے

جہاں کو بانٹ کر خوشیاں جو مسکانوں میں رہتے تھے وہ محلوں میں نہیں تشنہؔ بیابانوں میں رہتے تھے ہمارے گھر میں لایا کون ان مصنوعی پھولوں کو یہاں پہلے تو اصلی پھول گل دانوں میں رہتے تھے انہیں بھی شوق دنیا نے غلام اپنا بنا ڈالا ہمیشہ غرق جو تسبیح کے دانوں میں رہتے تھے اتر آئے ہیں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 508 سے 6203