پرانی یاد کی تمام کرچیاں لئے ہوئے
پرانی یاد کی تمام کرچیاں لئے ہوئے
اداس شام آ گئی پہیلیاں لئے ہوئے
ٹپک پڑا لہو اچھلتی مچھلیوں کو دیکھ کر
کبھی ملے تھے تم بھی کج کلاہیاں لئے ہوئے
ابھی تو موت سے ہیں دور زندگی کی پیاس ہے
کبھی چلیں گے اس طرف روانیاں لئے ہوئے
ٹھہر ذرا مرے رقیب دوست ساتھ ساتھ چل
ہم اس کی اور جا رہے ہیں کشتیاں لئے ہوئے
صدائیں آ رہیں دیار غم کا باب بھی کھلا
ملے گی رات عاشقوں کی سسکیاں لئے ہوئے
دھواں دھواں فضا سبھی ستارے گم ہوئے کہیں
کسی نے کھول دی ہے زلف سردیاں لئے ہوئے
میں کھو رہا ہوں خود کو ہر تلاش ختم ہو رہی
مری غزل ملی مجھے تسلیاں لئے ہوئے
نہیں نہیں ابھی دلوں کی بستیاں اجاڑ دو
کہ چل رہی یہ نسل نو برائیاں لئے ہوئے
کوئی مرا بھی ہو سکے یہ چاہتا نہیں خدا
عطا ہوئی ہیں رونقیں اداسیاں لئے ہوئے
وہ آخری سحر ہمیں عزیز تھی کبھی بہت
جہاں بچھڑ گئے تھے تم شتابیاں لئے ہوئے
سفید رنگ زندگی کا داغ داغ ہو گیا
تڑپ رہا تمام شب سیاہیاں لئے ہوئے