شاعری

لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے

لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے اب تو زہر الفاظ میں رکھا جاتا ہے مشکل ہے اک بات ہمارے مسلک کی اپنے آپ کو راز میں رکھا جاتا ہے اک شعلہ رکھنا ہوتا ہے سینے میں اک شعلہ آواز میں رکھا جاتا ہے ہم لوگوں کو خواب دکھا کر منزل کا رستے کے آغاز میں رکھا جاتا ہے یہاں تو اڑتے اڑتے تھک کر گرنے ...

مزید پڑھیے

گھنیری چھاؤں کے سپنے بہت دکھائے گئے

گھنیری چھاؤں کے سپنے بہت دکھائے گئے سوال یہ ہے کہ کتنے شجر اگائے گئے ملی ہے اور ہی تعبیر آ کے منزل پر وہ اور خواب تھے رستے میں جو دکھائے گئے مرے لہو سے مجھے منہدم کرایا گیا دیار غیر سے لشکر کہاں بلائے گئے دیے بنا کے جلائی تھیں انگلیاں ہم نے اندھیری شب کی عدالت میں ہم بھی لائے ...

مزید پڑھیے

در و دیوار سے ڈر لگ رہا تھا

در و دیوار سے ڈر لگ رہا تھا ترا گھر بھی مرا گھر لگ رہا تھا اسی نے سب سے پہلے ہار مانی وہی سب سے دلاور لگ رہا تھا جسے مہتاب کہتا تھا زمانہ ترے کوچے کا پتھر لگ رہا تھا جگہ اب چھوڑ دوں بیٹے کی خاطر وہ کل میرے برابر لگ رہا تھا خبر کیا تھی بگولوں کا ہے مسکن پرے سے تو سمندر لگ رہا ...

مزید پڑھیے

کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے

کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے شکست دے کے عدو کو معاف کرنا ہے ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے وہ بولتا ہے تو سب لوگ ایسے سنتے ہیں کہ جیسے اس نے کوئی انکشاف کرنا ہے مجھے پتہ ہے کہ اپنے بیان سے اس نے کہاں کہاں پہ ابھی انحراف کرنا ہے چراغ ...

مزید پڑھیے

در ٹوٹنے لگے کبھی دیوار گر پڑے

در ٹوٹنے لگے کبھی دیوار گر پڑے ہر روز میرے سر پہ یہ تلوار گر پڑے اتنا بھی انحصار مرے سائے پر نہ کر کیا جانے کب یہ موم کی دیوار گر پڑے سانسیں بچھا کے سوؤں کہ دست نسیم سے شاید کسی کے جسم کی مہکار گر پڑے ٹھہرے تو سائبان ہوا نے اڑا دئے چلنے لگے تو راہ کے اشجار گر پڑے ہر زاویے پہ سوچ ...

مزید پڑھیے

کیا تیرا کیا میرا خواب

کیا تیرا کیا میرا خواب جس کی قسمت اس کا خواب بابا آنکھیں نعمت ہیں مت دیکھا کر بابا خواب سارے سروں پر دستاریں خواب اور دیوانے کا خواب میں نے اجرت مانگی تھی اس نے ہاتھ پہ رکھا خواب بانٹ آتے ہیں بچوں میں روز اک جھوٹا سچا خواب شب بھر آنکھ میں بھیگا تھا پورے دن میں سوکھا خواب اک ...

مزید پڑھیے

اسرار بہت ہیں

دیوار جنوں سے لگ کر رونا اپنا ہی نوحہ در و دیوار سے کہنا پاگل پن کے آثار بہت ہیں کہتے نہیں لیکن طلب گار بہت ہیں یقیں مانو ہم بیمار بہت ہیں تو ہے تو بھی دل کے آزار بہت ہیں اور دل پیچیدہ کے اسرار بہت ہیں

مزید پڑھیے

سپاس نامۂ بہار غم

جشن بہاراں میں آج قصیدۂ گل چھیڑیں محفل میں رنگ بھر دیں اور عنایت گل کا پھر بہار کو احسان مند کر دیں کہ جیسے سعادت غم سے گراں بار دل زخم زخم گل سے بہار جاں فزا کا سزاوار اک الگ طرح سے پھر اس گل پیرہن کو آج دل سوزیٔ جاں کا قرض اٹھائے سپاس نامۂ بہار غم میں مرحبا مرحبا کہہ دیں

مزید پڑھیے

انحراف

اتنی اونچی آواز کس کی ہے کس نے دستور سے انحراف کیا اس طوطی کے نقار خانے میں کس نے زنجیر حبس کو ساز کیا کون اٹھتا اس جہان سراسیمہ میں اہل جنوں نے ہی طبل سے آغاز کیا دن منایا جا رہا ہے گھر کے باہر آج میرا عالمی دن ہے بہت شور و غوغا ہے اور گھر کے اندر کولہو کے بیل کی طرح میں اپنے دائرے ...

مزید پڑھیے

زندگی

پھولوں کی سیج بھی نئیں اور سراسر غم کا افسانہ بھی نئیں کچھ کیف ہے کچھ کڑواہٹ بھی کچھ دلچسپ ہے کچھ اکتاہٹ بھی کچھ غم ہے کچھ راحت بھی سب کچھ ہے مگر سچ ہے یہ بھی اس سے بڑا کوئی سراب خانہ بھی نئیں میں نے تمہیں خط لکھا تھا ملا ہوگا تمہارے خط تو مجھے مل جاتے ہیں جو تم ہواؤں کے ہاتھ بھیجا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4726 سے 5858