شاعری

چپ ہے وہ مہر بہ لب میں بھی رہوں اچھا ہے

چپ ہے وہ مہر بہ لب میں بھی رہوں اچھا ہے ہلکا ہلکا یہ محبت کا فسوں اچھا ہے موسم گل نہ سہی شغل جنوں اچھا ہے ہمدمو! تیز رہے گردش خوں، اچھا ہے تم بھی کرتے رہے تلقین سکوں کی خاطر میں بھی آوارہ و سرگشتہ رہوں اچھا ہے وہ بھی کیا خون کہ ہو جبر کی بنیاد میں جذب جو یوں ہی مفت میں بہہ جائے وہ ...

مزید پڑھیے

نظر چرا گئے اظہار مدعا سے مرے

نظر چرا گئے اظہار مدعا سے مرے تمام لفظ جو لگتے تھے آشنا سے مرے رفیقو راہ کے خم صبح کچھ ہیں شام کچھ اور ملے گی تم کو نہ منزل نقوش پا سے مرے لگی ہے چشم زمانہ اگرچہ وہ دامن بہت ہے دور ابھی دست نارسا سے مرے یہیں کہیں وہ حقیقت نہ کیوں تلاش کروں جسے گریز ہے اوہام ماورا سے مرے کسی پہ ...

مزید پڑھیے

نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے

نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے درکار مرے دل کو تھے غم اور طرح کے تم اور طرح کے سہی ہم اور طرح کے ہو جائیں بس اب قول و قسم اور طرح کے بت خانے کا منظر بخدا آج ہی دیکھا تھے میرے تصور میں صنم اور طرح کے کرتی ہیں مرے دل سے وہ خاموش نگاہیں کچھ رمز اشاروں سے بھی کم اور طرح کے غم ہوتے ...

مزید پڑھیے

پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں

پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں بھٹکا کے رہیں مجھ کو آوارہ گزر گاہیں آلام زمانہ سے چھوٹیں تو تجھے چاہیں مصروف مشقت ہیں حسرت سے بھری بانہیں صحرا ہی سے گزری تھیں کھوئی گئیں جو راہیں بتلائیں گے یہ چشمے یہ بن یہ چراگاہیں شمشیر کی زد پر ہیں کچھ اور ہمیں جیسے ہنگام تقاضا کیا ...

مزید پڑھیے

امید کے افق سے نہ اٹھا غبار تک

امید کے افق سے نہ اٹھا غبار تک دیکھی اگرچہ راہ خزاں سے بہار تک رکھنے کو تیرے وعدۂ نا معتبر کی لاج جھیلی ہے دل نے زحمت صبر و قرار تک دیکھا ہے کس نے منہ سحر جلوہ ساز کا سب ولولے ہیں ایک شب انتظار تک صیاد کے ستم سے رہائی کا ذکر کیا سو دام تھے قفس سے سر شاخسار تک ماتم یہ ہے کہ ذوق ...

مزید پڑھیے

ایمائے غزل کرتی ہیں موسم کی ادائیں

ایمائے غزل کرتی ہیں موسم کی ادائیں اک موج ترنم کی ہوس میں ہیں فضائیں نغموں کی زباں میں کوئی سمجھے تو بتائیں کیا چیز ہے یہ طرز یہ طرحیں یہ ادائیں روکے نہ گئے سینۂ خارا سے وہ طوفاں ہیں جن کو کناروں میں لئے ننگ قبائیں آئینے سے ہوتی ہیں صلاحیں کہ کسی کو جب خوب مٹانا ہو تو کس طرح ...

مزید پڑھیے

وہی اک فریب حسرت کہ تھا بخشش نگاراں

وہی اک فریب حسرت کہ تھا بخشش نگاراں سو قدم قدم پہ کھایا بہ طریق پختہ کاراں وہ چلے خزاں کے ڈیرے کہ ہے آمد بہاراں شب غم کے رہ نشینوں کہو اب صلاح یاراں مرے آشیاں کا کیا ہے مرا آسماں سلامت ہیں مرے چمن کی رونق یہی برق و باد و باراں نہ سہی پسند حکمت یہ شعار اہل دل ہے کبھی سر بھی دے ...

مزید پڑھیے

وہ مزا رکھتے ہیں کچھ تازہ فسانے اپنے

وہ مزا رکھتے ہیں کچھ تازہ فسانے اپنے بھولتے جاتے ہیں سب درد پرانے اپنے کر کے اک بار تری چشم فسوں گر کے سپرد پھر نہ پوچھا کبھی بندوں کو خدا نے اپنے بزم یاراں میں وہ اب کیف کہاں ہے باقی روز جاتے ہیں کہیں جی کو جلانے اپنے حال میں اپنے کچھ اس طرح مگن ہیں گویا ہم نے دیکھے ہی نہیں ...

مزید پڑھیے

دنیا ہی کی راہ پہ آخر رفتہ رفتہ آنا ہوگا

دنیا ہی کی راہ پہ آخر رفتہ رفتہ آنا ہوگا درد بھی دے گا ساتھ کہاں تک بیدل ہی بن جانا ہوگا حیرت کیا ہے ہم سے بڑھ کر کون بھلا بیگانہ ہوگا خود اپنے کو بھول چکے ہیں تم نے کیا پہچانا ہوگا دل کا ٹھکانا ڈھونڈ لیا ہے اور کہاں اب جانا ہوگا ہم ہوں گے اور وحشت ہوگی اور یہی ویرانہ ہوگا بیت ...

مزید پڑھیے

اتنا ہی نہیں ہے کہ ترے بن نہ رہا جائے

اتنا ہی نہیں ہے کہ ترے بن نہ رہا جائے وہ جاں پہ بنی ہے کہ جیے بن نہ رہا جائے اب دسترس شوق ہے بس نام تک اس کے اکثر جسے سو طرح لکھے بن نہ رہا جائے غم بردہ سہی غنچۂ افسردہ سہی دل تم پیار سے دیکھو تو کھلے بن نہ رہا جائے ہے دل ہی وہ ناداں کہ ہو تدبیر سے نومید اور پھر کوئی تدبیر کئے بن نہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1069 سے 5858