پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں

پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں
بھٹکا کے رہیں مجھ کو آوارہ گزر گاہیں


آلام زمانہ سے چھوٹیں تو تجھے چاہیں
مصروف مشقت ہیں حسرت سے بھری بانہیں


صحرا ہی سے گزری تھیں کھوئی گئیں جو راہیں
بتلائیں گے یہ چشمے یہ بن یہ چراگاہیں


شمشیر کی زد پر ہیں کچھ اور ہمیں جیسے
ہنگام تقاضا کیا اے دل وہ جسے چاہیں


کیا روپ بدلتے ہیں تصویر میں ڈھلتے ہیں
آنکھوں میں رکے آنسو سینے میں دبی آہیں


اب کون کہے تارا ٹوٹا تو کہاں پہنچا
آزاد کی ہر دنیا برباد کی سو راہیں


اب نام غم دل کا تصویر و قلم تک ہے
طوفاں نے سفینوں میں ڈھونڈی ہیں پنہ گاہیں


تشہیر جنوں کہیے یا ذوق سخن حقیؔ
ارزاں ہیں مرے آنسو رسوا ہیں مری آہیں