اتنا ہی نہیں ہے کہ ترے بن نہ رہا جائے

اتنا ہی نہیں ہے کہ ترے بن نہ رہا جائے
وہ جاں پہ بنی ہے کہ جیے بن نہ رہا جائے


اب دسترس شوق ہے بس نام تک اس کے
اکثر جسے سو طرح لکھے بن نہ رہا جائے


غم بردہ سہی غنچۂ افسردہ سہی دل
تم پیار سے دیکھو تو کھلے بن نہ رہا جائے


ہے دل ہی وہ ناداں کہ ہو تدبیر سے نومید
اور پھر کوئی تدبیر کئے بن نہ رہا جائے


افتاد میں کچھ سعیٔ متانت نہیں چلتی
رونے کو جو روکیں تو ہنسے بن نہ رہا جائے


ہم وہ ہیں کہ صد کعبہ و صد دیر کے ہوتے
گوشہ کوئی تعمیر کئے بن نہ رہا جائے


کچھ دیر گزرتی ہے کہ اے بلبل ناشاد
صیاد سے نخچیر ہوئے بن نہ رہا جائے


ہر چند کہ فرقت میں تری زہر ہو جینا
کچھ قہر ہے ایسا کہ جئے بن نہ رہا جائے