امید کے افق سے نہ اٹھا غبار تک

امید کے افق سے نہ اٹھا غبار تک
دیکھی اگرچہ راہ خزاں سے بہار تک


رکھنے کو تیرے وعدۂ نا معتبر کی لاج
جھیلی ہے دل نے زحمت صبر و قرار تک


دیکھا ہے کس نے منہ سحر جلوہ ساز کا
سب ولولے ہیں ایک شب انتظار تک


صیاد کے ستم سے رہائی کا ذکر کیا
سو دام تھے قفس سے سر شاخسار تک


ماتم یہ ہے کہ ذوق فغاں بھی نہیں نصیب
بے سوز ہو گیا نفس شعلہ کار تک


جاتی ہے دل کی حسرت نظارگی کہاں
نظارہ ہو گیا ہے نگاہوں پہ بار تک


کیا اس کی شان بندہ نوازی کا پوچھنا
بخشا ہے مفلسوں کو غم شاہوار تک


پھر اس کے بعد دل میں نہ اتری کوئی نگاہ
وہ تیزیاں رہیں ترے خنجر کی دھار تک


حقیؔ سے سرگراں ہی سہی نکتہ دان شعر
اک رنگ ہے کہ ہے کچھ اسی جان ہار تک