وہ مزا رکھتے ہیں کچھ تازہ فسانے اپنے

وہ مزا رکھتے ہیں کچھ تازہ فسانے اپنے
بھولتے جاتے ہیں سب درد پرانے اپنے


کر کے اک بار تری چشم فسوں گر کے سپرد
پھر نہ پوچھا کبھی بندوں کو خدا نے اپنے


بزم یاراں میں وہ اب کیف کہاں ہے باقی
روز جاتے ہیں کہیں جی کو جلانے اپنے


حال میں اپنے کچھ اس طرح مگن ہیں گویا
ہم نے دیکھے ہی نہیں اگلے زمانے اپنے


ہم وہی ہیں کہ جہاں بات کسی نے پوچھی
خوش گماں ہو کے لگے داغ دکھانے اپنے


ہم نشیں دوست کی صورت تو کہاں ملتی ہے
چین سے وہ ہے جو دشمن کو نہ جانے اپنے


ذکر سے اس کے سنوارا ہے سخن کو حقیؔ
خوش مزا لگتے ہیں کانوں کو ترانے اپنے