بڑھتا ہوا حوصلہ نہ ٹوٹے دل کا
بڑھتا ہوا حوصلہ نہ ٹوٹے دل کا تو دائرہ محدود نہ کر منزل کا مستقبل زریں پہ بہت ناز نہ کر ہے حال ہی وہ بھی کسی مستقبل کا
بڑھتا ہوا حوصلہ نہ ٹوٹے دل کا تو دائرہ محدود نہ کر منزل کا مستقبل زریں پہ بہت ناز نہ کر ہے حال ہی وہ بھی کسی مستقبل کا
مے خواروں سے جب دور نظر آئے گی جب آپ کو پر نور نظر آئے گی جو آج ہے انگور کی بیٹی زاہد جنت میں وہی حور نظر آئے گی
للہ مری سوزش پیہم کو نہ چھیڑ جا راہ لے اپنی تپش غم کو نہ چھیڑ میں نے تری جنت کو کبھی چھیڑا ہے تو بھی مرے خاموش جہنم کو نہ چھیڑ
معلوم کہ انسان کسے کہتے ہیں سمجھا کہ مسلمان کسے کہتے ہیں بہکا کے مجھے لائے ہو مے خانہ سے اب یہ کہو شیطان کسے کہتے ہیں
رکھ یاد ابھی تیرا سبق باقی ہے اس باغ میں اب بھی ترا حق باقی ہے نرگس ترے پتھرائے ہوئے دیدوں میں دیدار الٰہی کی رمق باقی ہے
مشاطگئی زلف سخن کا احساس آرائش حسن فکر و فن کا احساس لازم ہے مگر محرک تخلیقات اصلاً ہے ایک ادھورے پن کا احساس
جب بولو تو بولو ایسے کلمات مرغوب ہوں لوگوں کو جو مثل نبات آ جائے کسی کے شیشۂ دل میں بال منہ سے نہ نکالو ایسی کوئی بات
گونگے الفاظ کو نوا دیتا ہے تخیئل کو تصویر بنا دیتا ہے کر دیتا ہے خفتگاں کو شاعر بیدار مردوں کو بھی قم کہہ کے جلا دیتا ہے
ہر بات کو پہلے تولتا ہے شاعر تب جا کے زبان کھولتا ہے شاعر جس بات میں ملا دیتا ہے تلخی ناصح اس چیز میں شہد گھولتا ہے شاعر
احساس کو لفظوں میں پرونے کا فن قطرے کا در خوش آب ہونے کا فن کہتے ہیں رباعی جسے وہ ہے ناوکؔ کوزے کو سمندر میں سمونے کا فن