دل دیکھ اسے جس گھڑی بے تاب ہوا
دل دیکھ اسے جس گھڑی بے تاب ہوا اور چاہ ذقن سے مثل گرداب ہوا کی عرض کہ بے قرار دل ہے تو کہا اب دل نہ کہو اسے جو سیماب ہوا
دل دیکھ اسے جس گھڑی بے تاب ہوا اور چاہ ذقن سے مثل گرداب ہوا کی عرض کہ بے قرار دل ہے تو کہا اب دل نہ کہو اسے جو سیماب ہوا
ہم اس کی جفا سے جی میں ہو کر دلگیر رک بیٹھے تو ہیں ولے کریں کیا تقریر دل ہاتھ سے جاتا ہے بغیر اس سے ملے اب جو نہ پڑیں پاؤں تو پھر کیا تدبیر
گر یار سے ہر روز ملاقات نہیں اور ہو بھی گئی تو پھر مدارات نہیں دل دے چکے اب قدر ہو یا بے قدری جو کچھ ہو سو ہو بس کی تو کچھ بات نہیں
محبوب نے پیرہن میں جب عطر ملا اور پان چبا کے اپنے گھر سے وہ چلا ہم نے یہ کہا نہ جاؤ باہر اے جاں ہے شام قریب ہنس دیا کہہ کے بھلا
پیشانی پہ سیال نگینہ کیوں ہے گرداب میں حسن کا سفینہ کیوں ہے نادم ہوں مجھے اپنی ندامت تسلیم یہ آپ کے ماتھے پہ پسینہ کیوں ہے
ہر سانس میں اک حشر بپا ہے واعظ دنیا ہی میں عقبیٰ کا مزا ہے واعظ آئے ہو تم اک روز جزا کو لے کر ہر روز یہاں روز جزا ہے واعظ
ساحل پہ اگر مرا سفینہ آ جائے دنیا تجھے جینے کا قرینہ آ جائے بل نزع میں آئے جو مری آبرو پر ماتھے پہ اجل کے پسینہ آ جائے
بے بادہ بھی غم سے دور ہو جاتا ہوں خود حاصل صد سرور ہو جاتا ہوں مطلب تو ہے چور چور ہو جانے سے تھک کر بھی تو چور چور ہو جاتا ہوں
کس طرح سے آئی ہے جماہی توبہ توبہ توبہ توبہ ارے تباہی توبہ دو گھونٹ بھی اس وقت ہے ملنا دشوار یہ قحط اگر ہے تو الٰہی توبہ
رخصت ابھی ظلمتوں کا ڈیرا کر دوں ناپید جہاں سے اندھیرا کر دوں سورج کے نکلنے میں تو ہے دیر ابھی پیمانہ اٹھا دو تو سویرا کر دوں