ہو آنکھیں تو دیکھ میرے غم کی تحریر
ہو آنکھیں تو دیکھ میرے غم کی تحریر پڑھنا ہو تو پڑھ دیدۂ نم کی تحریر اے موت خوش آمدید انشا اللہ زندہ مجھے رکھے گی قلم کی تحریر
ہو آنکھیں تو دیکھ میرے غم کی تحریر پڑھنا ہو تو پڑھ دیدۂ نم کی تحریر اے موت خوش آمدید انشا اللہ زندہ مجھے رکھے گی قلم کی تحریر
بیداریٔ احساس ہے الجھن میری حلقے میں مصائب کے ہے گردن میری ٹھہرائیں کسے مورد الزام کہ خود ہے فطرت حساس ہی دشمن میری
شاعر شاعر ہے ہو جو اہل ایماں مسعود و مبارک ہے جو ہو صدق بیاں ورنہ بکواس ہے کلام شاعر دیوانہ ہوا ہے بک رہا ہے ہذیاں
اخلاق سے ہو گئی عاری دنیا سر تا بہ قدم ہے کاروباری دنیا مہلک ہے بہت جوہر انساں کا زوال کس جال میں پھنس گئی ہماری دنیا
اک شمع سر راہ جلی خیر ہوئی تشویش کی حاجت نہ رہی خیر ہوئی کمزور سہی مگر اجالا تو ہوا توقیر حیات بڑھ گئی خیر ہوئی
اے صاحب زر امیر اعلیٰ تو کون آتا ہے خیال لا محالہ تو کون جو کچھ بھی ملے عطائے قدرت سے ملے انعام مجھے دینے والا تو کون
تدبیر شفا کسے بتائے کوئی جھوٹے وعدوں پہ کیوں پھنسائے کوئی غواص ہی بیری ہو سمندر سے اگر سچے موتی کہاں سے لائے کوئی
چہرے کی تب و تاب میں کوند لپکے آنکھوں میں حسین رات پلکیں جھپکے احساس کی انگلیاں جو چھو لیں ان کو بھیگے ہوئے انفاس سے امرت ٹپکے
شالوں کے بھنور مچل رہے ہوں جیسے انوار شفق پگھل رہے ہوں جیسے یوں لوریاں گاتا ہے ان آنکھوں میں شباب مندر میں چراغ چل رہے ہوں جیسے
جب اہل گلستاں کو شعور آئے گا جب دیدۂ حساس میں نور آئے گا پھولوں کی لطافت بھی گراں گزرے گی کانٹوں کی چبھن میں بھی سرور آئے گا