سفر پر سفر
بیابان و صحرا کو میں زیر کرتا چلا جا رہا ہوں مگر یہ یقیں ہے کہ تاریک آنکھوں سے پردہ ہٹے گا اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہوں گے نظر مجھ کو آئے گا روشن ستارہ کہ چاہت میں جس کی ازل سے زمیں پر سفر پر سفر طے کیے جا رہا ہوں
بیابان و صحرا کو میں زیر کرتا چلا جا رہا ہوں مگر یہ یقیں ہے کہ تاریک آنکھوں سے پردہ ہٹے گا اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہوں گے نظر مجھ کو آئے گا روشن ستارہ کہ چاہت میں جس کی ازل سے زمیں پر سفر پر سفر طے کیے جا رہا ہوں
پوچھتا ہوں جب کبھی میں ان فرشتوں سے کہ لکھا کیا ہے تم نے حال میرے ان گناہوں کا جنہیں میں روز کرتا ہوں تو ظالم کچھ بتاتے ہی نہیں ہیں ہاں مگر وہ حال میرے ان گناہوں کا سناتے ہیں جنہیں بھولے سے بھی میں نے کبھی سوچا نہیں ہے
ابھی تک منتظر ہوں میں کوئی جھونکا ہوا کا اس طرح آئے کہ اپنے ساتھ لے جائے اڑا کر آسماں کی بے کرانی میں جہاں دل میں کوئی خواہش اٹھائے سر نہ کوئی وسوسہ جاگے
کل کل کرتی جاتی ندیا کتنی ہنستی گاتی ندیا جیون کا سنگیت سناتی بل کھاتی شرماتی ندیا پانی سے بھر جاتی ہے جب ساگر میں مل جاتی ندیا موجیں لہریں جھلمل جھلمل سب کے دل کو بھاتی ندیا اپنے غم کو سہہ جاتی ہے ہر دم ہنستی گاتی ندیا سکھ دکھ کو ہو ساتھی جیسے راہ میں آتی جاتی ندیا
کوئی آواز جب بھی سنسناتی ہے کبھی سنسان راتوں میں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے یک بہ یک آ کر ہوا کا تیز جھونکا میرے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹاتا ہے مگر پٹ کھولتا ہوں جب مری محرومیاں ہاتھوں کو پھیلائے سواگت میرا کرتی ہیں
جب سے آئی ہے دیپاولی ہر طرف چھائی ہے روشنی ہر جگہ چاہتوں کے دیے شام ہوتے ہی جلنے لگے پھلجھڑیوں کا بازار ہے یہ پٹاخوں کا تہوار ہے دیپوں کا ہے سہانا سماں جن سے دھرتی بنی کہکشاں جتنے راکٹ پٹاخے چلے آسماں پر لگے ہیں بھلے ہو گئیں دور تاریکیاں اب ہیں روشن زمیں آسماں جب سے آئی ہیں ...
پھر مرے احساس نے مجھ کو اڑا کر ساتھ اپنے یہ کہاں پر لا کے چھوڑا اجنبی اس شہر میں لگتا ہے جیسے سیکڑوں افراد میرے ہم نوا و ہم قدم ہو کر پرائے شہر میں میری طرح ہی راستے کی گرد بن کر اڑ رہے ہیں
مرا گھر اجنبی لگتا ہے کیوں آخر وہ راہیں بھی جو گھر تک لے کے جاتی ہیں کبھی تھیں آشنا مجھ سے مگر نا آشنا اب ہیں بہت مایوس ہوں سب سے مجھے پہچاننے والا نہیں کوئی کوئی رشتہ بھی اب اپنا نہیں لگتا یہاں کی ریشمی صبحیں اجالے اپنے آنگن کے اداسی سے بھری شامیں چمکتے رات کے تارے سبھی یہ مجھ سے ...
خواہش کا اک سمندر میرے دل میں دور تک اپنی جڑیں پھیلائے مجھ کو اپنے گھیرے میں لیے اپنی موجوں کے سہارے چوس لینا چاہتا ہے سب لہو غالباً اک آکٹوپس کے گھنے پنجوں کی زد میں ہوں میں عادلؔ
مجھے برباد کرنے میں مزہ آیا تو کچھ ہوگا سیاہی پوت دی تقدیر پر لا کر مجھے تاریکیوں کے غار میں چھوڑا جہاں میں ساتھ اک اک سانس کے مقدور بھر کوشش کئے جاتا ہوں لیکن مجھے ملتی نہیں ہے راہ جس پر میں قدم آگے بڑھاؤں اپنے حصے کی وہ چیزیں چھین لوں جن کو چھپا کر میری آنکھوں سے مرے ہی واسطے ...