کھڑکی اندھی ہو چکی ہے
کھڑکی اندھی ہو چکی ہے دھول کی چادر میں اپنا منہ چھپائے کالی سڑکیں سو چکی ہیں دھوپ کی ننگی چڑیلوں کے سلگتے قہقہوں سے جا بجا پیڑوں کے سائے جل رہے ہیں میز پر گلدان میں ہنستے ہوئے پھولوں سے میٹھے لمس کی خوشبو کا جھرنا بہہ رہا ہے ایک سایہ آئینے کے کان میں کچھ کہہ رہا ہے عہد رفتہ کی ...