چاند کے پیٹ میں حمل مچھلی
چاند کے پیٹ میں حمل مچھلی مچھلی کے منہ میں کل وجود و عدم منہ سے دم تک غبار نقش قدم نقش کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے ٹوٹنے کا عمل مسلسل سا چاند کا پیٹ نامکمل سا
چاند کے پیٹ میں حمل مچھلی مچھلی کے منہ میں کل وجود و عدم منہ سے دم تک غبار نقش قدم نقش کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے ٹوٹنے کا عمل مسلسل سا چاند کا پیٹ نامکمل سا
پھول باسی ہو گئے ہیں لمس کی شدت سے تھک کر ہاتھ جھوٹے ہو گئے ہیں اس جگہ کل نہر تھی اور آج دریا بہہ رہا ہے بوڑھا مانجھی کہہ رہا ہے خواہشوں کے پیڑ پر لٹکے ہوئے سایوں کو دیمک کھا رہی ہے وقت کی نالی میں سورج چاند تارے بہہ رہے ہیں برف کے جنگل سے شعلے اٹھ رہے ہیں خواب کے جلتے ہوئے ...
تبوک آواز دے رہا ہے زمیں سے اب جو چپک رہے گا منافقوں میں شمار ہوگا لہو کے سورج کی لال آنکھیں اداس لمحوں کو سونگھتی ہیں کھجور پکنے کا وقت بھی ہے سواریاں اور سفر کا سامان ساتھ لے لو خدا بڑا ہے بہت بڑا ہے خدا بڑا ہے تمہارے اونٹوں کی گردنوں سے تمام دنیا میں نور پھیلے تمہارے گھوڑوں کی ...
رات کے آخری حصے کی سیاہی گہری ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا پھر بھی خواب میں لپٹے ہوئے اندیشے نیند کے غار میں جاگی آنکھیں گہری گہرائی میں دھیرے سے اترتا پانی سہما سہما ہوا ڈرتا پانی پانی یخ بستہ وضو کا پانی اور خوشبو کے مصلے پہ کوئی سر بہ سجود خود کلامی کی گھڑی کپکپاتے ہوئے ...
بند مٹھی میں ہونٹ کے ٹکڑے اور ٹکڑوں میں ہانپتے سورج اور سورج میں سبز تاریکی اور تاریکی میں برہنہ خیال اور برہنہ خیال میں کشتی اور کشتی میں فصل گندم کی اور گندم کی بند مٹھی میں ہونٹ کی سرخی کپکپاتی ہوئی
روز آدھی رات کو اک طلسمی غار کے خفیہ دروازے کے سینے میں جنم لیتی ہیں غیبی دھڑکنیں غار کی گہرائی میں چلتے ہوئے سنگیت کے قدموں کی چاپ رات کی اندھی ہوا کا ہاتھ پکڑے دور تک جاتی ہے ساتھ ایک زہری سانپ کھنچ آتا ہے سر کی چاہ میں لاکھ خطرے ہیں ذرا سی راہ میں بند دروازے کے پاس نرم بھینی ...
لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو شکستہ خواب کے شیشوں پہ اس کا عکس پڑے سیاہ مٹی کے نیچے سفید بال جلے کسی کے دانت مری انگلیاں چبا جائیں خلا کے زینے سے پرچھائیاں اترنے لگیں ہر ایک لمحے کے چہرے پہ دھوپ مرنے لگے اداس وقت کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلوں بزرگ باپ کے چہرے کی جھریاں ...
لفظ کی چھاؤں میں نیم کی پتیوں کا سفر تلخ سا سیلنی جسم میں روح بے چین بھی شہریت کے تقاضے جو ٹوٹے کبھی زندگی کے عمل میں بھی شک آ پڑا ٹوٹ کر کس طرح جڑ گئی چاندنی دھوپ لمحوں کے چہروں سے گرتی ہوئی خاک میں جا ملی سر جھکائے ہوئے کون سڑکوں پہ یوں تجھ کو ڈھونڈا کرے ہم کلامی کی عزت کا بادل ...
وہ چالیس راتوں سے سویا نہ تھا وہ خوابوں کو اونٹوں پہ لادے ہوئے رات کے ریگزاروں میں چلتا رہا چاندنی کی چتاؤں میں جلتا رہا میز پر کانچ کے اک پیالے میں رکھے ہوئے دانت ہنستے رہے کالی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے پھر موتیے کی کلی سر اٹھانے لگی آنکھ میں تیرگی مسکرانے لگی روح کا ہاتھ چھلنی ...
خوں پتھر پہ سرک آیا گہرا نیلا رنگ ہوا میں ڈوب گیا جل کنیا کے جسم پہ کالے سانپ کا سایہ لہرایا دریا دریا زہر چڑھا گیلی ریت پہ دھوپ نے اپنا نام لکھا مٹھی میں مچھلی کا آنسو سوکھ گیا گھوڑوں کی ٹاپوں سے کمرہ گونج اٹھا خرگوشوں کی آنکھوں سے سورج نکلے پھر دریا کی ناف میں کشتی ڈوب گئی کاغذ ...