دھوپ
کھڑکی کے شیشے سے چھن کر کمرے میں آ جاتی ہے میز کی تصویروں کو اپنے ہاتھوں سے چمکاتی ہے ساری کتابوں کے چہروں کو اجلا کرتی جاتی ہے پھر میرے بستر سے مجھ کو اٹھنے پر اکساتی ہے میں روز اپنے خواب ادھورے چھوڑ کے باہر جاتا ہوں!
کھڑکی کے شیشے سے چھن کر کمرے میں آ جاتی ہے میز کی تصویروں کو اپنے ہاتھوں سے چمکاتی ہے ساری کتابوں کے چہروں کو اجلا کرتی جاتی ہے پھر میرے بستر سے مجھ کو اٹھنے پر اکساتی ہے میں روز اپنے خواب ادھورے چھوڑ کے باہر جاتا ہوں!
بہت دنوں سے مجھے انتظار ہے لیکن تمہارے شہر سے کوئی یہاں نہیں آیا میں سوچتا ہوں تو بس یہ کہ اب تمہاری شکل گزرتے وقت کے ہاتھوں بدل گئی ہوگی خمیدہ زلفوں کی کالی گھٹا میں اب شاید سفید بالوں کی تعداد بڑھ گئی ہو گی تمہارے گال پہ جو ایک تل چمکتا تھا پتہ نہیں وہ چمک اس میں اب بھی باقی ...
سنہرے خوابوں کی وادی میں مدتوں ہم نے کئی مکان بسائے کئی مکیں بدلے تمام عمر رہا انتظار کا عالم گزرتے لمحوں کا ماتم کیا نڈھال رہے نہ دوستوں میں کوئی اب نہ دشمنوں میں کوئی ہمارے ماضی کا ہم سے حساب لے کر جو ہمارے سود و زیاں کا لگا کے اندازہ ہمیں بتائے کہ کیا کھویا ہم نے کیا پایا بس ...
درد کی ساعتوں سے گھبرا کر فائلوں سے دلوں کو بہلا کر کیا بتائیں کہ کس طرح ہم نے تیری فرقت میں دن گزارے ہیں تیری آمد ہمارے چہرے پر آج اک تازگی سی لے آئی لیکن اس عارضی مسرت کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں چند لمحوں میں یہ نئے کاغذ ہم سے اس طرح دور بھاگیں گے جس طرح چند قرض داروں کی پیچھا ...
موت کی پر سکوت بستی کو دے کے اک زندگی کا نذرانہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹے ہیں سب کے چہرے ہیں فرط غم سے نڈھال سب کی آنکھیں چھلک گئی ہیں آج پھر بھی سرحد میں شہر کی آ کر ہنستے بچوں کو کھیلتا پا کر دیکھ کر زندگی کے ہنگامے ایسا محسوس کر رہے ہیں سب جیسے افسردگی کے صحرا سے کوئی آواز دے کے ...
باغوں نے پہنا پھولوں کا گہنا نہروں کا بہنا وارفتہ رہنا دنیا میں جنت میرا وطن ہے بھوری گھٹائیں لائیں ہوائیں باغوں میں جائیں کلیاں کھلائیں دنیا میں جنت میرا وطن ہے اک جھونپڑی ہے سب کچھ یہی ہے کیا سادگی ہے کیا زندگی ہے دنیا میں جنت میرا وطن ہے کرشنؔ کنہیا رادھا کا رسیا بچوں کے ...
دوڑا دوڑا چوہا آیا اور خرگوش کو بیٹھا پایا بولا یوں آیا ہوں بھائی بات ضروری اک یاد آئی جانتے ہو کیا کر بیٹھے ہو تم جو ابھی کھا کر بیٹھے ہو وہ چھوٹی سی سنہری پڑیا یہ بھی سمجھے اصل میں تھی کیا چونکا کچھ کچھ کانوں والا کچھ تو ضرور ہے دال میں کالا بولا چوہے کیا کہتا ہے آخر تیرے جی میں ...
ایک کہانی اور سنا دو ایک کہانی اور ایک کہانی ایک کہانی اچھی نانی اور لال پری آکاش سے اتری پریوں کے راجا کی پتری ایک محل کے چھت پر آئی چھت پر ناچی چھت پر گائی یہ تو بتا دو اس نے دل میں کیا تھی ٹھانی اور ایک کہانی ایک کہانی اچھی نانی اور ملا نصرالدین کہاں ہیں کیا وہ کسی کے پھر مہماں ...
دور بہت ہی دور یہاں سے اور اس سے بھی دور ندی اک نکلی ہے جہاں سے اور اس سے بھی دور دلدل ہے گہری سی جہاں پر دلدل سے بھی دور جنگل میں ہے بڑھیا کا گھر جنگل سے بھی دور یاد ہے اس کو ایک کہانی ہے اس میں اک حور خود یہ ہے اک ملک کی رانی ملک ہے نندیا پور اس جنگل کو دیکھوں گا میں جنگل سے بھی ...
باجا بجا نازوں پلا راجا چلا اس پر چڑھا آگے بڑھا کھٹ کھٹ چلا سرپٹ چلا آیا پری کے دیس میں ایسی کری جادوگری بادل پھٹا پردہ ہٹا آئی پری گائی پری پاپا اسے لایا اسے سوداگروں کے بھیس میں