شاعری

خون تمنا

جل چکی شاخ نشیمن تھم چکی باد سموم اب ہوائے نو بہاراں کوثر افشاں ہے تو کیا کر چکی خون تمنا تیرگیٔ شام غم آسماں پر اب نیا سورج درخشاں ہے تو کیا جام افسردہ صراحی سرنگوں مینا خموش میکدے میں اب ہجوم مے گساراں ہے تو کیا دور ہو سکتا نہیں اے دوست قرنوں کا سکوت زندگی اب اپنے بربط پر غزل ...

مزید پڑھیے

خانہ بدوش

شاخوں پہ سرخ و زرد شگوفے ہیں محو خواب خواب گراں سے جاگنے والا ہے آفتاب گیسو کھلے ہوئے ہیں عروس بہار کے شانے ہلا رہی ہے صبا لالہ زار کے ویران ہو چلی ہے ستاروں کی انجمن دامان کوہسار میں جیسے ہیں خیمہ زن وہ لوگ پیکر غم و حرماں کہیں جنہیں بیتابیوں کے روپ میں انساں کہیں جنہیں ہر سانس ...

مزید پڑھیے

شکست

بالکنی سے باہر جھانکا آئینے میں صورت دیکھی لپ اسٹک سے ہونٹ سنوارے اپنی گھڑی کو جھوٹا سمجھا باہر آ کر وقت ملایا وقت کو بھی جب سچا پایا غصے میں دانت اپنے پیسے ریشم جیسے بال کھسوٹے سارے خط چولھے میں جھونکے آئینے پر پتھر مارا اتنے میں پھر آہٹ پائی دوڑی دوڑی باہر آئی لیکن خود کو تنہا ...

مزید پڑھیے

آخری سفر

مستقبل کی جھولی میں ہم گرتے رہیں گے دانہ دانہ ماضی کی لمبی ڈوری سے کٹتے رہیں گے لمحہ، لمحہ آخر اک دن دھاگے میں بکھرے دانے ٹوٹے لمحوں کا ہار پرو کر طاق میں تم سب رکھ دوگے!

مزید پڑھیے

یادیں

رات کے گہرے سناٹے میں میں گھر کے آنگن میں تنہا چاند کو کب سے دیکھ رہا ہوں دل کی دیواروں کو کب سے غم کی دیمک چاٹ رہی ہے ذہن کے لمبے سے کمرے میں میرے ماضی کی الماری جس کے دونوں ہی در وا ہیں غور سے مجھ کو دیکھ رہی ہے جی میں یہ آتا ہے میرے ماضی کی اس الماری سے جس میں بری بھلی سب ...

مزید پڑھیے

تضاد

زمین گھومتی ہے روز اپنے محور پر فلک کھڑا ہے اسی طرح سر اٹھائے ہوئے دنوں کے پیچھے لگی ہیں اسی طرح راتیں سفر ہے جاری اسی طرح اب بھی لمحوں کا ہوا کے دوش پہ خوشبو کے قافلے اب بھی رتیں بدلنے کا پیغام لے کے آتے ہیں ہمارے بیچ مگر فاصلے جو قائم ہیں کسی طرح نہیں کم ہوتے بڑھتے جاتے ہیں!

مزید پڑھیے

مداوا

بھرے بازار میں اک شخص اب تک اسے مڑ مڑ کے دیکھے جا رہا ہے نہیں اتنی بھی سدھ باقی کہ سوچے یہ کب کا واقعہ یاد آ رہا ہے عیاں صورت سے ہے اس کی کہ جیسے زمیں پیروں کے نیچے ہل گئی ہو کوئی شے جو کبھی گم ہو گئی تھی اچانک راستے میں مل گئی ہو!

مزید پڑھیے

نرس

شہر کے ہسپتال میں اس کو ایک ہفتہ ہوا ہے آئے ہوئے ''سات نمبر'' کا کانا ٹھیکیدار کانپتا تھا جو دیکھ کر نشتر اس کے زخموں پہ آج کل وہ خود اپنے ہاتھوں سے پھائے رکھتی ہے لنگڑا بدھ سین ''گیارہ نمبر'' کا اس کی آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں گھونٹ کڑوی دوا کے پیتا ہے ''پانچ نمبر'' کا دق زدہ شاعر دیکھ ...

مزید پڑھیے

رات، معمول اور ہم

اپنے سائے سے بھی گھبرائیں گے ایک پل چین نہیں پائیں گے سوچتے سوچتے تھک جائیں گے ہانپتے کانپتے چل کر آخر تیرے دروازے پہ دستک دیں گے تو ہمیں دیکھ کے مغموم و ملول اپنی بانہوں کا سہارا دے گی اور ہم چین سے سو جائیں گے کل یہ سایہ ہمیں پھر گھیرے گا کل یہی فکر ہمیں کھائے گی اور ہم پھر اسی ...

مزید پڑھیے

میلہ

آدمیوں کے اس میلے میں وقت کی انگلی پکڑے پکڑے جانے کب سے گھوم رہا ہوں کبھی کبھی جی میں آتا ہے اس میلے کو چھوڑ کے میں بھی ان ٹیڑھی راہوں پر جاؤں دور سے جو سیدھی لگتی ہیں لیکن جانے کیوں اک سایہ رستہ روک کے کہہ دیتا ہے وقت کے ساتھ نہ چلنے والے مرتے دم تک پچھتاتے ہیں آدمیوں کے میلے میں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 913 سے 960