خون تمنا
جل چکی شاخ نشیمن تھم چکی باد سموم اب ہوائے نو بہاراں کوثر افشاں ہے تو کیا کر چکی خون تمنا تیرگیٔ شام غم آسماں پر اب نیا سورج درخشاں ہے تو کیا جام افسردہ صراحی سرنگوں مینا خموش میکدے میں اب ہجوم مے گساراں ہے تو کیا دور ہو سکتا نہیں اے دوست قرنوں کا سکوت زندگی اب اپنے بربط پر غزل ...