شاعری

غنڈہ

موت بندوق لیے پھرتی ہے گلی کوچوں میں دندناتی ہے کان میں سیٹیاں بجاتی ہے آسماں ناک پر اٹھاتی ہوئی ٹھوکروں سے زمیں اڑاتی ہوئی تختیاں غور سے پڑھتی ہے سب مکانوں کی گالیاں بکتی گزرتی ہے ہر محلے سے ریز گاری بھی چراتی ہے روز گلے سے موت بندوق لیے پھرتی ہے کوئی گھر سے نکل نہیں پاتا اس کے ...

مزید پڑھیے

خالی لمحوں کی نظم

نہ منزل کا تعین نہ راستوں کا پتا سلگتی دھوپ تپتے پتھروں کے سینے پر کبھی ملا نہ ملے گا کسی کا نقش پا اسیر سیل گماں ہے عروس عمر رواں لباس تنگ لہو رنگ موج خوں پیاسی صدا بہ صحرا ہیں چیخیں دریدہ جسم زمیں تمام دل زدہ چہرے بجھی بجھی نظریں تمام بکھرے ارادے دھواں دھواں یادیں قرآن و دید کا ...

مزید پڑھیے

التجا

اب نہ چہرے پہ اجالا نہ گریباں میں سحر آنکھیں خاموش بتوں کی مانند یاس بادل کی طرح چھائی ہوئی راہیں گھبرائی ہوئی ایک اک آنکھ نے پڑھ لی وہ عبارت یارو جو مرے چہرے پہ قسام ازل نے لکھی اس عبارت کا ہر اک لفظ بنا ہے کاسہ میں سوالی نظر آنے لگا سر تا بہ قدم آنکھیں خاموش بتوں کی مانند چاہتا ...

مزید پڑھیے

آگہی کے ویرانے

چاند نے داغوں کو دھونا چاہا تاکہ پر نور بدن وادیٔ احساس کو روشن کر دے چشمۂ صبح کی جانب وہ بڑھا جیسے ہی مرمریں کرنوں پہ سفاک اندھیروں کا ہجوم حملہ آور ہوا قزاق اجل کی مانند ٹوٹ کر چاند گرا غار سیہ میں آنکھیں بجھ گئیں محفل انجم کی سبک رو شمعیں سر نگوں مہر بہ لب پہلے تو کچھ دیر ...

مزید پڑھیے

گیان

میں کہ صبح ازل جستجوئے بشر میں چلا تھا جستجوئے بشر میں چلا تھا آج تک رات دن صرف چلتا رہا اب جو پہنچا ہوں اس دشت میں تو یہ بوسیدہ قبروں کے مٹتے خطوط مجھ سے کہتے ہیں آگے ان فصیلوں سے کچھ ہی پرے ایک بستی بھی آباد ہے

مزید پڑھیے

لا حاصل لا حاصل

سعئ لا حاصل سہی کھلنے دے خوابوں کے کنول دائروں میں گھومنے والوں نے دیکھے ہیں سرابوں کے کنول اونگھتے سورج کے پیلے عکس نے آنکھوں میں بھر دیں کرچیاں سوز محرومی ہے شہہ رگ میں نہاں دن کے چہرے سے عیاں پیلے پیلے دائروں کی موج میں کھلنے دے خوابوں کے کنول تشنہ سرابوں کے کنول سعئ لا حاصل ...

مزید پڑھیے

نہیں ہوتا

اثر ہم پر ذرا نہیں ہوتا کوئی گر کارگر نہیں ہوتا سر پہ ڈنڈوں کی بارشیں بھی ہوئیں ہم سے پوچھو کہ کیا نہیں ہوتا مرغ اکثر بنائے جاتے ہیں آہ پھر بھی اثر نہیں ہوتا ہم نے لڈو چرائے ہیں اکثر جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا لکھنے پڑھنے سے بیر ہے ہم کو پیار اس سے کبھی نہیں ہوتا مار جب بے پناہ پڑتی ...

مزید پڑھیے

نیا سال

پھر نیا سال دبے پاؤں چلا آیا ہے اور مٹتے ہوئے مدھم سے نقوش دور ماضی کی خلاؤں میں نظر آتے ہیں جیسے چھوڑی ہوئی منزل کا نشاں جیسے کچھ دور سے آتی ہوئی آواز جرس کون سہمے ہوئے مایوس دیوں کو دیکھے پھر بھی یہ مجھ کو خیال آتا ہے کتنی نوخیز امیدوں کو سہارے نہ ملے کتنی ڈوبی ہوئی کشتی کو ...

مزید پڑھیے

شکست

گھنے درخت کے سائے میں کون بیٹھا ہے تصورات کی سو مشعلیں جلائے ہوئے ریاض و فکر کی لہریں جوان چہرے پر سیاہ زلف مشیت کا دل چرائے ہوئے یہ اضطراب کہ اندر کا دل دھڑکتا ہے یہ ارتعاش کہ کہسار تھرتھرائے ہوئے یہ آدمی نہ کہیں ضبط زندگی سہہ کر مجھی سے چھین لے میرے کنول جلائے ہوئے کہو کہو کسی ...

مزید پڑھیے

گھروندے

گھنٹیاں گونج اٹھیں گونج اٹھیں گیس بے کار جلاتے ہو بجھا دو برنر اپنی چیزوں کو اٹھا کر رکھو جاؤ گھر جاؤ لگا دو یہ کواڑ ایک نیلی سی حسیں رنگ کی کاپی لے کر میں یہاں گھر کو چلا آتا ہوں ایک سگریٹ کو سلگاتا ہوں وہ مری آس میں بیٹھی ہوگی وہ مری راہ بھی تکتی ہوگی کیوں ابھی تک نہیں آئے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 863 سے 960