آگہی کے ویرانے
چاند نے
داغوں کو دھونا چاہا
تاکہ پر نور بدن
وادیٔ احساس کو روشن کر دے
چشمۂ صبح کی جانب
وہ بڑھا جیسے ہی
مرمریں کرنوں پہ
سفاک اندھیروں کا ہجوم
حملہ آور ہوا
قزاق اجل کی مانند
ٹوٹ کر چاند گرا غار سیہ میں آنکھیں
بجھ گئیں محفل انجم کی سبک رو شمعیں
سر نگوں مہر بہ لب پہلے تو کچھ دیر جلیں
تاب باقی نہ رہی جب تو سیہ پوش ہوئیں
اور پھر چار طرف
رات کا آنچل پھیلا