التجا

اب نہ چہرے پہ اجالا
نہ گریباں میں سحر
آنکھیں خاموش
بتوں کی مانند
یاس بادل کی طرح چھائی ہوئی
راہیں گھبرائی ہوئی


ایک اک آنکھ نے پڑھ لی
وہ عبارت یارو
جو مرے چہرے پہ قسام ازل نے لکھی
اس عبارت کا ہر اک لفظ بنا ہے کاسہ
میں سوالی نظر آنے لگا
سر تا بہ قدم
آنکھیں خاموش
بتوں کی مانند
چاہتا ہوں کہ برس جائیں یہ آنکھیں
کھل کر جسم تازہ ہو تو شاید شگوفے کی نمو
جبر کی دھوپ میں بھی
ہنس پڑیں خوابوں کے کنول
میرے چہرے پہ جو لکھی ہے عبارت
اس کے
ایک اک لفظ کے چہرے پہ اجالا ہو
گریباں میں سحر


التجا کرتا ہوں
اس قادر مطلق کے حضور
گیند شب میں مہ‌ و نجم سجائے جس نے
شہر دل میں نہ سہی چاند ستارے لیکن
اس کی دیواروں کے حصے میں دریچہ دے دے
لالہ و گل کی ضرورت نہیں اس گلشن کو
ہو سکے گر تو کوئی پھول سا چہرہ دے دے
جسم بخشے ہیں تمناؤں کو جب پتھر کے
دست امید میں ساغر نہ دے
تیشہ دے دے