نہیں ہوتا

اثر ہم پر ذرا نہیں ہوتا
کوئی گر کارگر نہیں ہوتا
سر پہ ڈنڈوں کی بارشیں بھی ہوئیں
ہم سے پوچھو کہ کیا نہیں ہوتا
مرغ اکثر بنائے جاتے ہیں
آہ پھر بھی اثر نہیں ہوتا
ہم نے لڈو چرائے ہیں اکثر
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
لکھنے پڑھنے سے بیر ہے ہم کو
پیار اس سے کبھی نہیں ہوتا
مار جب بے پناہ پڑتی ہے
تب کوئی ہم نوا نہیں ہوتا
دل پہ غم کی گھٹائیں چھائی ہیں
جب کہ چھٹی کا دن نہیں ہوتا
کھیلنے کودنے سے الفت ہے
کیوں کہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
گھر پہ ابا اسکول میں استاد
کون ہے جو برا نہیں ہوتا