خزاں
ایک سہاگن ہولی کے بعد دھان کے کھیت میں میڑ کے اس پار ببول کے نیچے اپنا لباس تبدیل کر رہی ہے
ایک سہاگن ہولی کے بعد دھان کے کھیت میں میڑ کے اس پار ببول کے نیچے اپنا لباس تبدیل کر رہی ہے
اے حسیں چاند ستاروں مری آواز سنو کیا تمہیں رات کی تاریکی سے ڈر لگتا ہے یا تمہیں میرے شبستاں سے کوئی کام نہیں اتنے خاموش ہو کیوں کچھ تو کہو دیکھو میں وقت کے تاریک بیابانوں سے لمحۂ فکر کا اک ہار چرا لایا ہوں میری آواز سنو میرے گیتوں کی مچلتی ہوئی آواز سنو جھوم کر گاؤ اٹھو رنگ ...
کل میں نے پنگھٹ پر دیکھا اک پنہارن بھولی بھالی پیاسی مٹی کی گاگر میں پانی بھر کے بیٹھ گئی تھی بیٹھ گئی تھی پیڑ کے نیچے جانے وہ کیا سوچ رہی تھی اتنے میں قمری کا جوڑا پیڑ پہ آیا دھوم مچایا کوئل کوکی مور بھی ناچا بن کا ٹوٹ گیا سناٹا رم جھم جل برسائے تب جا کر الڑھ دوشیزہ جو سپنوں سے ...
دوپہر کو زرد سورج اک کھنڈر کی سانولی دیوار سے لپٹا رہا چپکے چپکے آہ بھرتا دیر تک روتا رہا
موسم کی پہلی بارش میں بوند بوند سے رواں رواں جلتا تھا ہوا سائیں سائیں کرتی آہیں بھرتی لیکن دل کی آگ بھڑکتی جاتی تنہائی پوشاک پہنتے شرماتی خوں کی گردش جسم کے تانے بانے کو گرماتی کیا کیا خواب دکھاتی
اجلی اجلی تصویروں کو زنگ لگا ہے دروازوں کو بوڑھی دیمک چاٹ رہی ہے تصویریں خاموش ہیں لیکن گونگے کاغذ بول رہے ہیں
مسافروں سے کہو آسماں کو مت دیکھیں نہ کوئی ابر کا ٹکڑا نہ کوئی تار شفق گذشتہ شام کا اٹھا ہوا وہ گرد و غبار ابھی تلک ہیں فضائیں اسی سے آلودہ وہ ایک آگ کبھی زاد راہ تھی۔ اپنا جہاں قیام کیا تھا وہیں پہ چھوڑ آئے تو اہل قافلہ اب داستان گو سے کہو کوئی روایت کہنہ کوئی حکایت نو جو خوں کو ...
گھور اندھیرے صحراؤں میں جب میں بھٹکا اک ٹیلے پر چڑھ کر چیخا خدایا!! اک سکتے کے بعد جواباً ستر بار اپنی ہی آواز سنائی دی مجھ کو
آؤ آج سے ہم بھی خوف خوف ہو جائیں خوف بھی تو نشہ ہے خوف بھی تو قوت ہے خوف کے لیے بھی تو جان کی ضرورت ہے آؤ اپنی طاقت کو ہم بھی آزما دیکھیں خوف خوف ہو جائیں خود نمائی کے تیور ڈھنگ پردہ داری کے ہم نوائی کے دعوے رنگ دشمنی کے سب، خوف کی علامت ہیں قربتوں کی خواہش میں سر گرانیاں کیا ...
خواب اک پرندہ ہے آنکھ کے قفس میں یہ جب تلک مقید ہے عکس بن کے زندہ ہے خواب اک پرندہ ہے خواب اک پرندہ ہے زرد موسموں میں بھی خوش گوار یادوں کو تازہ کار رکھتا ہے آنے والے موسم کے گیت گنگناتا ہے شاخ شاخ پر مہکے پھول چن کے لاتا ہے اور پھر ہوا کے دوش خوشبوؤں کا ساتھی ہے خواب اک پرندہ ...