تہذیب

اجلی اجلی تصویروں کو زنگ لگا ہے
دروازوں کو
بوڑھی دیمک چاٹ رہی ہے
تصویریں
خاموش ہیں لیکن
گونگے کاغذ
بول رہے ہیں