شاعری

طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا

طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا دیکھا بھی تو ساحل سے لپٹ کر نہیں دیکھا پتھر بھی تھے کانٹے بھی بہت راہ طلب میں پھر بھی کبھی اس راہ سے کٹ کر نہیں دیکھا کشکول محبت میں خزانے تھے وفا کے تو نے کبھی دامن سے لپٹ کر نہیں دیکھا معیار تمنا ترا پندار تکبر ہم نے بھی تو معیار سے ہٹ کر ...

مزید پڑھیے

ساقی اپنا رند بھی اپنے توڑ گیا پیمانے کون

ساقی اپنا رند بھی اپنے توڑ گیا پیمانے کون مے خواروں میں نفرت پھیلی آیا تھا بہکانے کون گلشن جیسے پیاس کا صحرا مالی جیسے ہو صیاد ہرے بھرے اس باغ کو یارو روند گیا ہے جانے کون فصلیں بونے والے دہقاں پوچھیں تو کس سے پوچھیں بھوسہ چھوڑ کے کھلیانوں میں بیچ گیا ہے دانے کون نصف صدی کا ...

مزید پڑھیے

مستقل درد کا سیلاب کہاں اچھا ہے

مستقل درد کا سیلاب کہاں اچھا ہے وقفۂ سلسلۂ آہ و فغاں اچھا ہے ہو نہ جائے مرے لہجے کا اثر زہریلا ان دنوں منہ سے نکل جائے زباں اچھا ہے مجھ سے مانگے گی مری آنکھ گلابی منظر ہو مرے ہاتھ میں تصویر بتاں اچھا ہے جن کے سینے میں تعصب نہیں پلتا کوئی ایسے لوگوں کے لیے سارا جہاں اچھا ...

مزید پڑھیے

ظلم و جور کو کب تک مصلحت میں تولیں گے

ظلم و جور کو کب تک مصلحت میں تولیں گے اس صدی کے دانشور کب زبان کھولیں گے راس آ گئی جن کو بھیک آب و دانے کی وہ طیور اب ہرگز بال و پر نہ کھولیں گے بے حسی کے جذبوں کو خون کی ضرورت ہے کب ضمیر جاگیں گے کب عوام بولیں گے اہل کبر و نخوت کی اپنی آستینوں میں وہ جو سانپ پلتے ہیں اور زہر ...

مزید پڑھیے

غم سہے رسوا ہوئے جذبات کی تحقیر کی

غم سہے رسوا ہوئے جذبات کی تحقیر کی ہم نے چاہا آپ کو ہم نے بڑی تقصیر کی روزن زنداں سے در آئی ہے سورج کی کرن بن گئی ناقوس آزادی صدا زنجیر کی خون کے چھینٹے پڑے ہیں شیخ کی دستار پر شہر کی گلیوں سے آئی ہے صدا تکبیر کی ذات کے اندر تلاطم ذات کے باہر سکوت مصلحت کوشی نے کیسی شخصیت تعمیر ...

مزید پڑھیے

کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ

کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ ہم یہ کہتے تھے کہ سڑکوں پر نکل آئیں گے لوگ ظلمتوں کی تیغ نے کاٹا اجالے کا گلا بے حسی کا دور جب سوچیں گے پچھتائیں گے لوگ آج اپنی ذات سے سچ بولنا بھی جرم ہے کل سر محفل ہماری بات دہرائیں گے لوگ کٹ گئی زنجیر ظلمت صبح کے آثار ہیں تیغ کی ...

مزید پڑھیے

ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا

ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا جلایا جائے گا پھر کوئی آشیانہ نیا وہی حکایت مجبوری بشر کہ جو تھی نہ کوئی دام نیا ہے نہ آب و دانہ نیا خدا نہیں ہو خدائی پہ اختیار تو ہے کسے مجال کہ اب ڈھونڈھے آستانہ نیا حریف موجۂ طوفاں ہے میری تشنہ لبی کوئی سنے تو ذرا ان سے شاخسانہ نیا سمندروں ...

مزید پڑھیے

مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں

مآل عشق و محبت سے آشنا تو نہیں کہیں یہ غم بھی تری طرح بے وفا تو نہیں سفینے والو چلو آج دل کی بات کہیں اٹھو خدا کے لئے ناخدا خدا تو نہیں یہ اور بات ہے ماحول سازگار نہ ہو شکستہ بربط احساس بے صدا تو نہیں بجا کہ میری تباہی میں ان کا ہاتھ نہیں مگر یہ گردش دوراں کا حوصلہ تو نہیں جمود ...

مزید پڑھیے

ہوا باتوں کی جو چلنے لگی ہے

ہوا باتوں کی جو چلنے لگی ہے سو اک افواہ بھی اڑنے لگی ہے ہم آوازوں سے خالی ہو رہے ہیں خلا میں ہوک سی اٹھنے لگی ہے کہاں رہتا ہے گھر کوئی بھی خالی ان آنکھوں میں نمی رہنے لگی ہے ہوئی بالغ مری تنہائی آخر کسی کی آرزو کرنے لگی ہے مسلسل روشنی کی بارشوں سے نظر میں کائی سی جمنے لگی ہے

مزید پڑھیے

بن کر جو انجان گئے ہیں

بن کر جو انجان گئے ہیں وہ مجھ کو پہچان گئے ہیں شبنم کے کتنے ہی آنسو پھولوں پر قربان گئے ہیں ہنسنے والے یہ کیا سمجھیں ساحل تک طوفان گئے ہیں

مزید پڑھیے
صفحہ 56 سے 4657