کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ

کج کلاہی کو یقیں تھا گھٹ کے مر جائیں گے لوگ
ہم یہ کہتے تھے کہ سڑکوں پر نکل آئیں گے لوگ


ظلمتوں کی تیغ نے کاٹا اجالے کا گلا
بے حسی کا دور جب سوچیں گے پچھتائیں گے لوگ


آج اپنی ذات سے سچ بولنا بھی جرم ہے
کل سر محفل ہماری بات دہرائیں گے لوگ


کٹ گئی زنجیر ظلمت صبح کے آثار ہیں
تیغ کی جھنکار پر اب رقص فرمائیں گے لوگ


سر جھکا کر ظلم سہنا بھی سراسر ظلم ہے
کربلا تازہ لہو تاریخ دہرائیں گے لوگ


شہر کے ویران سناٹے سے گھبرائے ہوئے
دشت کی آبادیوں کو ڈھونڈتے آئیں گے لوگ