ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا
ستم گروں نے تراشا ہے اک بہانہ نیا
جلایا جائے گا پھر کوئی آشیانہ نیا
وہی حکایت مجبوری بشر کہ جو تھی
نہ کوئی دام نیا ہے نہ آب و دانہ نیا
خدا نہیں ہو خدائی پہ اختیار تو ہے
کسے مجال کہ اب ڈھونڈھے آستانہ نیا
حریف موجۂ طوفاں ہے میری تشنہ لبی
کوئی سنے تو ذرا ان سے شاخسانہ نیا
سمندروں کی روانی پہ دسترس ان کی
ہوائیں ڈھونڈھتی پھرتی ہیں اب ٹھکانہ نیا
تمہارے عہد حکومت میں کس کی ہمت ہے
لگائے فکر کے صحرا میں شامیانہ نیا
جو متحد ہوں تو قطرے بھی اک سمندر ہیں
سنے گا کون مگر حرف محرمانہ نیا