طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا

طوفان سے منجھدار سے ہٹ کر نہیں دیکھا
دیکھا بھی تو ساحل سے لپٹ کر نہیں دیکھا


پتھر بھی تھے کانٹے بھی بہت راہ طلب میں
پھر بھی کبھی اس راہ سے کٹ کر نہیں دیکھا


کشکول محبت میں خزانے تھے وفا کے
تو نے کبھی دامن سے لپٹ کر نہیں دیکھا


معیار تمنا ترا پندار تکبر
ہم نے بھی تو معیار سے ہٹ کر نہیں دیکھا


پانی پہ جو قبضہ کیا افواج ستم نے
پیاسوں نے بھی دریا کو پلٹ کر نہیں دیکھا


ہر کوچہ و بازار نے دیں لاکھ صدائیں
لیکن ترے شیدا نے پلٹ کر نہیں دیکھا


وسعت رہی نظروں میں رکھا دل بھی کشادہ
عاشورؔ نے دنیا کو سمٹ کر نہیں دیکھا