شاعری

پس منظروں کے سامنے منظر ہی رہ نہ جائیں

پس منظروں کے سامنے منظر ہی رہ نہ جائیں سینوں کے راز سینوں کے اندر ہی رہ نہ جائیں کہنے کی بات اور ہے کرنے کی بات اور یعنی یہ سوچ لیجئے کہہ کر ہی رہ نہ جائیں دیکھو وہی تو وقت نہیں آ رہا ہے پھر پھر آج اپنے ساتھ بہتر ہی رہ نہ جائیں اک دوسرے کو یہ جو ہڑپ کر رہے ہیں ہم سوچو زمیں نہ ہو تو ...

مزید پڑھیے

ادھر ادھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے

ادھر ادھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے سڑک پہ آؤ سمندر میں آزماؤ مجھے مرا وجود اگر راستے میں حائل ہے تم اپنی راہ نکالو پھلانگ جاؤ مجھے سوائے میرے نہیں کوئی جارحانہ قدم میں اک حقیر پیادہ سہی بڑھاؤ مجھے اسی میں میری تمہاری نجات مضمر ہے کہ میں بناؤں تمہیں اور تم مٹاؤ مجھے گزرنے ...

مزید پڑھیے

درد سے یار چیخ اٹھے ہیں

درد سے یار چیخ اٹھے ہیں سر بازار چیخ اٹھے ہیں تو کہانی میں کیوں ہوا شامل سارے کردار چیخ اٹھے ہیں جن کے منہ میں زبان تھی ہی نہیں وہ بھی اس بار چیخ اٹھے ہیں خود ہی آ اور آ کے دیکھ ذرا تیرے شہکار چیخ اٹھے ہیں تیری تصویر کیا لگی گھر میں در و دیوار چیخ اٹھے ہیں تیرا ستار ورد کرتے ...

مزید پڑھیے

چلو اس بے وفا کو میں بھلا کر دیکھ لیتا ہوں

چلو اس بے وفا کو میں بھلا کر دیکھ لیتا ہوں یہ شعلے خشک پتوں میں چھپا کر دیکھ لیتا ہوں کسی صورت گزشتہ ساعتوں کے نقش مٹ جائیں میں دیواروں سے تصویریں ہٹا کر دیکھ لیتا ہوں جو اتنی پاس ہیں وہ صورتیں دھندلائیں گی کیسے خود اپنی سانس شیشے پر لگا کر دیکھ لیتا ہوں بہت دل کو ستاتا ہے اگر ...

مزید پڑھیے

ڈھلوان پر گلاب ترائی میں گھاس ہے

ڈھلوان پر گلاب ترائی میں گھاس ہے اس خطۂ چمن کو مرے خوں کی پیاس ہے موسم کی آندھیوں میں بکھر جائے ٹوٹ کر اس کارگاہ شیشہ گری کو یہ راس ہے میں جانتا ہوں شرم سے بوجھل نگاہ کو یہ ننگی خواہشوں کا پرانا لباس ہے جو بجھ چکا اس ایک ستارے کی روشنی اب بھی سواد شہر دل و جاں کے پاس ہے ہے یاد ...

مزید پڑھیے

آنے لگی ہے زہر کی خوشبو شمال سے

آنے لگی ہے زہر کی خوشبو شمال سے جھلکے گا رنگ خون کا عصر زوال سے ہیں درج آنے والی رتوں کے حساب میں پتے جھڑے ہوئے شجر ماہ و سال سے خواہش کے کاروبار کی رسمیں بدل گئیں ملتے ہیں پھول بڑھ کے خود اپنے مآل سے گلدان میں سجی ہوئی کلیوں کو کیا خبر کیا پوچھتی ہے باد صبا ڈال ڈال سے ظاہر ہیں ...

مزید پڑھیے

کیا ہمارے اشک کی قیمت نہیں بولی گئی

کیا ہمارے اشک کی قیمت نہیں بولی گئی کیوں ہمارے گاؤں کی سڑکیں نہیں بدلی گئی اب جہاں میں کوئی بھی انسان مجھ کو نہ دکھا یہ کسی کی سوچ ہے ہم سے نہیں سوچی گئی خاتمہ پوری طرح انسانیت کا کب ہوا بس ردا لاچار کی اوڑھے ہوئی سوتی گئی ہے ابھی بھی عشق لیلا اور مجنوں کی طرح وہ ہمارے نام پہ ...

مزید پڑھیے

عمر گزری ہے بد گمانی پر

عمر گزری ہے بد گمانی پر میں یقیں کر گیا کہانی پر چاند میری طرح بھی ٹوٹا تھا جب گھٹا چھائی رت سہانی پر توڑیئے اب رسن فراق کی یار رحم کھا جاؤ زندگانی پر سانس تھم جائے گی سمندر کی اشک گر جائے گا جو پانی پر ماں بلائے تو آپ بولے نہیں حیف ہے آپ کی جوانی پر ناز کرتا ہے زمزم و کوثر ہر ...

مزید پڑھیے

فراق یار ترا امتداد ٹھیک نہیں

فراق یار ترا امتداد ٹھیک نہیں نیا ہے زخم ابھی مستزاد ٹھیک نہیں چلے بھی آؤ کہ گریہ کناں ہے تو ہمدم تجھے خبر ہے ترا انجماد ٹھیک نہیں میں منتظر ہوں کہ جلدی پلٹ کے آ جانا تمہاری چال میں اب اقتصاد ٹھیک نہیں کیوں غور و خوض تو جدت جہد کی گنجائش اصول عشق میں ہو اجتہاد ٹھیک نہیں چڑھا ...

مزید پڑھیے

عجلتوں میں اس نے ہم سے کہہ دیا بے فکر ہوں (ردیف .. ے)

عجلتوں میں اس نے ہم سے کہہ دیا بے فکر ہوں پر ہماری چاہ میں شام و سحر روتے رہے اشک میری خیریت لینے کی خاطر دم بدم اپنا ساحل چھوڑ کر رخسار پر بہتے رہے کیا ابھی بھی عشق کے قابل نہیں سمجھے گئے جتنے غم تو نے دئے ہنس ہنس کے ہم سہتے رہے پھول تو بھی چھوڑ دے خوشبو اڑانا باغ میں خار تیرے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 2904 سے 4657