عجلتوں میں اس نے ہم سے کہہ دیا بے فکر ہوں (ردیف .. ے)

عجلتوں میں اس نے ہم سے کہہ دیا بے فکر ہوں
پر ہماری چاہ میں شام و سحر روتے رہے


اشک میری خیریت لینے کی خاطر دم بدم
اپنا ساحل چھوڑ کر رخسار پر بہتے رہے


کیا ابھی بھی عشق کے قابل نہیں سمجھے گئے
جتنے غم تو نے دئے ہنس ہنس کے ہم سہتے رہے


پھول تو بھی چھوڑ دے خوشبو اڑانا باغ میں
خار تیرے واسطے زخمی مجھے کرتے رہے


بے حسی تجھ سے مجھے شکوہ ہمیشہ سے رہا
غیر کے ٹکڑوں پہ کیوں اہل قلم پلتے رہے


ڈھونڈھ پاتا ہی نہیں مجھ کو مگر اس کے لئے
خوش نصیبی تھی زمیں پر نقش پا چھپتے رہے


اے محبت امتحاں لینا ہمارا چھوڑ دے
فیل ہوتے ہم گئے تجھ کو برا کہتے رہے


ماں اگر گھر میں رہے گھر بھی مرا جنت لگے
پھر سکوں اتنا ملا جیسے یہیں رہتے رہے


واسطہ میں اس حکومت سے بھلا کیسے رکھوں
خود کشی کر لی کسانوں نے جواں مرتے رہے


بیج ہم نے بو دیا بنجر زمیں دیکھا نہیں
پھر حکومت سے گلا شکوے سبھی کرتے رہے


قتل اس نے کر دیا مجھ کو مگر اچھا ہوا
خون کے قطرے اسی کے ہاتھ سے لپٹے رہے


چاشنی اردو ادب کی کم نہیں ہوگی کبھی
ہم بزرگوں کے قلم کو تھام کر لکھتے رہے