عمر گزری ہے بد گمانی پر
عمر گزری ہے بد گمانی پر
میں یقیں کر گیا کہانی پر
چاند میری طرح بھی ٹوٹا تھا
جب گھٹا چھائی رت سہانی پر
توڑیئے اب رسن فراق کی یار
رحم کھا جاؤ زندگانی پر
سانس تھم جائے گی سمندر کی
اشک گر جائے گا جو پانی پر
ماں بلائے تو آپ بولے نہیں
حیف ہے آپ کی جوانی پر
ناز کرتا ہے زمزم و کوثر
ہر گھڑی عرق ضو فشانی پر