فراق یار ترا امتداد ٹھیک نہیں

فراق یار ترا امتداد ٹھیک نہیں
نیا ہے زخم ابھی مستزاد ٹھیک نہیں


چلے بھی آؤ کہ گریہ کناں ہے تو ہمدم
تجھے خبر ہے ترا انجماد ٹھیک نہیں


میں منتظر ہوں کہ جلدی پلٹ کے آ جانا
تمہاری چال میں اب اقتصاد ٹھیک نہیں


کیوں غور و خوض تو جدت جہد کی گنجائش
اصول عشق میں ہو اجتہاد ٹھیک نہیں


چڑھا تھا بام پہ دیدار یار کی خاطر
میں نیچے آؤں اگر نا مراد ٹھیک نہیں