شاعری

شامل کارواں تو ہم بھی ہیں

شامل کارواں تو ہم بھی ہیں تیری جانب رواں تو ہم بھی ہے یہ حقیقت نہیں تو پھر کیا ہے یعنی وہم و گماں تو ہم بھی ہیں بار ہجرت سروں پہ ہے اپنے اتنے بے خانماں تو ہم بھی ہیں کہہ رہے ہیں خزاں زدہ چہرے اے بہارو یہاں تو ہم بھی ہیں سچ نہ مانو تو جھوٹ ہی کہہ لو اک رخ داستاں تو ہم بھی ہیں ہم ...

مزید پڑھیے

آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں

آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں اک نئی صبح نئے دن نئے خورشید میں ہوں مجھ سے وہ کیسے کرے حرف و حکایت آغاز میں ابھی سلسلۂ حرف کی تمہید میں ہوں مجھ میں بھی فقر کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے ہے مجھے فخر کہ اک صورت تقلید میں ہوں میں نے دیکھا ہے اسے یا نہیں دیکھا اس کو میں ابھی تک تو اسی ...

مزید پڑھیے

اب بھی گزرے ہوئے لوگوں کا اثر بولتا ہے

اب بھی گزرے ہوئے لوگوں کا اثر بولتا ہے راہ خاموش ہے امکان سفر بولتا ہے شاخ سے ٹوٹ کے رشتے نہیں ٹوٹا کرتے خشک پتوں کی زباں میں بھی شجر بولتا ہے یہ تو دنیا ہے تسلسل کا عمل جاری ہے بولنے والے چلے جائیں تو گھر بولتا ہے ڈھونڈنے جائیں تو ملتا ہی نہیں اس کا پتہ اور رستہ ہے کہ تا حد نظر ...

مزید پڑھیے

ترے کرم کا مرے دشت پہ جو سایا ہوا

ترے کرم کا مرے دشت پہ جو سایا ہوا مجھے لگا ہی نہیں میں بھی ہوں ستایا ہوا وہ تجربات کی حد سے نکل گیا آگے وہ ایک شخص کہ تھا میرا آزمایا ہوا کسی کے دست حنائی کا لمس روشن تھا کوئی چراغ نہ تھا ہاتھ میں چھپایا ہوا ہمارا نام نہیں ہے ہمارا ذکر نہیں مگر یہاں سے کوئی لفظ ہے مٹایا ہوا میں ...

مزید پڑھیے

جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں

جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں یہ اور بات ہے جیتو کہ ہار جاؤں میں کبھی میں خواب میں دیکھوں ہری بھری فصلیں کبھی خیال کے دریا کے پار جاؤں میں اک اور معرکۂ جبر و اختیار سہی اک اور لمحۂ تازہ گزار جاؤں میں بکھر گئے ہیں جو لمحے سمیٹ لوں ان کو بگڑ گئے ہیں جو نقشے سنوار جاؤں ...

مزید پڑھیے

سارے موسم ہیں مہربان سے کچھ

سارے موسم ہیں مہربان سے کچھ روز اترتا ہے آسمان سے کچھ ہر عبارت سوال جیسی ہے لفظ غائب ہیں درمیان سے کچھ کس کی لو نے جلا دیا کس کو راکھ میں ہیں ابھی نشان سے کچھ کس سے تفسیر ماہ و سال کریں دن گزرتے ہیں بے امان سے کچھ کیا خبر یہ کہاں تلک پھیلے اٹھ رہا ہے دھواں گمان سے کچھ کارواں کس ...

مزید پڑھیے

سر شاخ طلب زنجیر نکلی

سر شاخ طلب زنجیر نکلی یہ کس کے خواب کی تعبیر نکلی زمیں پر بے زمینی کی کسک ہے یہ میرے نام کی جاگیر نکلی ارادوں سے نکل آئے ارادے مرے اندر عجب تعمیر نکلی دریچوں پر دریچے کھل رہے ہیں ہر اک تصویر میں تصویر نکلی سفر میں پھر سفر کے خواب آئیں یہی ہر خواب کی تعبیر نکلی سرافرازی کا ...

مزید پڑھیے

کبھی اڑو تو سہی تم اڑان سے اوپر

کبھی اڑو تو سہی تم اڑان سے اوپر فضائیں اور بھی ہیں آسمان سے اوپر مرا سفینہ عجب کشمکش میں تیرتا تھا ہوا سکوت میں تھی بادبان سے اوپر کسی نے سچ نہ کہا اور سب نے سچ جانا عجب کمال بیاں تھا بیان سے اوپر مرے حریف کے سب تیر بے خطا تو نہ تھے مگر وہ دست اماں تھا کمان سے اوپر کسی نے آج ہی ...

مزید پڑھیے

سفر میں ہیں تو ہمیں یاد بام و در کی ہے

سفر میں ہیں تو ہمیں یاد بام و در کی ہے ٹھہر گئے ہیں تو پھر آرزو سفر کی ہے سکوں سے بیٹھنے والو یہ تم نے سوچا بھی یہاں یہ چھاؤں ہے لیکن یہ کس شجر کی ہے مرے لیے مری ہجرت ہی اجر کیا کم ہے میں چل رہا ہوں کہ ہر راہ میرے گھر کی ہے ہمیں بھی ہے تو خبر دھوپ چھاؤں کی اطہرؔ کہ ہم نے بھی تو کوئی ...

مزید پڑھیے

سوگ ہم اپنی تباہی کا منانے لگ جائیں

سوگ ہم اپنی تباہی کا منانے لگ جائیں اتنے ٹوٹے بھی نہیں ہیں کہ ٹھکانے لگ جائیں اس لیے خود کو ترے در سے جڑا رکھا ہے کم سے کم عشق کہ آداب تو آنے لگ جائیں ہم سے کچھ لوگ جو زندہ نہ رکھیں روشنیاں روشنی والے چراغ اپنے بجھانے لگ جائیں ہم نے اس عمر میں جو درد اٹھا رکھے ہیں آپ اگر سوچنے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 2892 سے 4657