سوگ ہم اپنی تباہی کا منانے لگ جائیں
سوگ ہم اپنی تباہی کا منانے لگ جائیں
اتنے ٹوٹے بھی نہیں ہیں کہ ٹھکانے لگ جائیں
اس لیے خود کو ترے در سے جڑا رکھا ہے
کم سے کم عشق کہ آداب تو آنے لگ جائیں
ہم سے کچھ لوگ جو زندہ نہ رکھیں روشنیاں
روشنی والے چراغ اپنے بجھانے لگ جائیں
ہم نے اس عمر میں جو درد اٹھا رکھے ہیں
آپ اگر سوچنے بیٹھیں تو زمانے لگ جائیں
پھر تو میں بولنے لگ جاؤں گا سورج کے خلاف
چند جگنو جو مرے ہاتھ میں آنے لگ جائیں
تو نے ارشاد کی الفت کا بھرم توڑا ہے
جا ترے پیچھے کئی اور دوانے لگ جائیں