سر شاخ طلب زنجیر نکلی
سر شاخ طلب زنجیر نکلی
یہ کس کے خواب کی تعبیر نکلی
زمیں پر بے زمینی کی کسک ہے
یہ میرے نام کی جاگیر نکلی
ارادوں سے نکل آئے ارادے
مرے اندر عجب تعمیر نکلی
دریچوں پر دریچے کھل رہے ہیں
ہر اک تصویر میں تصویر نکلی
سفر میں پھر سفر کے خواب آئیں
یہی ہر خواب کی تعبیر نکلی
سرافرازی کا منظر دیکھتا تھا
برہنہ سر ہر اک توقیر نکلی