شاعری

پھر سے تجدید آرزو کر لیں

پھر سے تجدید آرزو کر لیں آئیے کچھ تو گفتگو کر لیں زندگی کے حسیں دوراہے پر کچھ تمنائے رنگ و بو کر لیں دوستوں سے نباہ گر چاہیں دشمنوں کو بھی ہم سبو کر لیں جسم و جاں روح کو سنوار تو دیں آنسوؤں سے اگر وضو کر لیں لوگ فرد وفا جفا دیکھیں آئنہ دل کا روبرو کر لیں عیب جو نکتہ چیں عدو ...

مزید پڑھیے

کچھ خبر نامہ بر نہیں آتی

کچھ خبر نامہ بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھک گئے ہم تلاش کرتے ہوئے اپنی منزل نظر نہیں آتی بسری یادوں کا ہے جو دل میں ہجوم رات ٹھہری سحر نہیں آتی جب خودی کا خمار ہو جائے خود سری راہ پر نہیں آتی عکس بر آب ہے نظر لیکن صورت چارہ گر نہیں آتی درد و غم کی فغاں بھی ہے خاموش یہ ...

مزید پڑھیے

تصورات کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں

تصورات کی دنیا بسائے بیٹھا ہوں خزینہ ہائے محبت لٹائے بیٹھا ہوں تصورات کی دنیا میں محو ہوں اتنا کہ اپنے آپ کو دل سے بھلائے بیٹھا ہوں کسی حسین کا چہرہ ہے سامنے میرے اسی کو قبلہ و کعبہ بنائے بیٹھا ہوں میں میکدے کی بہاروں کو دیکھ کر ساقی کسی کے نشہ پہ نظریں جمائے بیٹھا ...

مزید پڑھیے

زخم پر پھونک بھی دوا جیسی

زخم پر پھونک بھی دوا جیسی ماں کی ہر بات ہے دعا جیسی مدتوں سے سفر میں ہوں پھر بھی انتہا کیوں ہے ابتدا جیسی چھوٹی دنیا کی یہ بڑی خبریں تیز رفتار ہیں ہوا جیسی میری ہم راہ بن کے چلتی ہیں مشکلیں تو ہیں دل ربا جیسی جب بھی بھٹکا ترا خیال آیا تیری یادیں ہیں نقش پا جیسی ان کی یہ ...

مزید پڑھیے

ذہن میں کچھ قیاس رہتا ہے

ذہن میں کچھ قیاس رہتا ہے نصف خالی گلاس رہتا ہے ہر طرف رنگ و نور ہے پھر بھی شہر کیوں کر اداس رہتا ہے مفلسی میں بھی ہاتھ پھیلائیں کچھ تو عزت کا پاس رہتا ہے امن کا قتل ہو گیا جب سے شہر اب بد حواس رہتا ہے تیز رفتار زندگانی میں حادثہ آس پاس رہتا ہے دور پتھر کا پھر سے لوٹ آیا اب جہاں ...

مزید پڑھیے

سنگ ریزوں کی طرح پیش نظر رہتے ہیں

سنگ ریزوں کی طرح پیش نظر رہتے ہیں میرے کاسے میں پڑے لعل و گہر رہتے ہیں سائے چنتے ہیں کڑی دھوپ کے صحرا سے ہم پا شکستہ ہیں مگر محو سفر رہتے ہیں کال کوئل کی صدائیں نہ شفق رنگ کہیں شہر میں جانے کہاں شام و سحر رہتے ہیں کھیلتے ہیں مرے آنگن میں وہ خوش خوش باہم رنج خوشیوں سے بہت شیر و ...

مزید پڑھیے

ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا

ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا گم ہوا جانے کہاں بھیڑ میں چہرہ اپنا میری خواہش کے پرندے کو قناعت ہے پسند سوکھی ٹہنی پہ ہی کرتا ہے بسیرا اپنا حرص کاروں کے خزانے کی ہوئی ہے جب سے خیر خیرات سے بھرتا نہیں کاسہ اپنا ہم نے سیکھا ہے گلابوں سے تکلم کا طریق کھردرا ہو نہیں سکتا کبھی ...

مزید پڑھیے

منزل بے نشاں سے کیا حاصل

منزل بے نشاں سے کیا حاصل گم شدہ کارواں سے کیا حاصل تنگ ہوتی زمیں کا ٹکڑا دے وسعت آسماں سے کیا حاصل کیا کریں جب کہ بجھ گئیں آنکھیں رونق بے کراں سے کیا حاصل داد خواہی کا حق بھی چھین لیا اب کہ دارالاماں سے کیا حاصل لمس رشتوں کا پائیں دیواریں گھر عطا کر مکاں سے کیا حاصل لٹ گئیں ...

مزید پڑھیے

ابر کا سر پہ سائباں بھی تو ہو

ابر کا سر پہ سائباں بھی تو ہو صحبت یاد رفتگاں بھی تو ہو ٹوٹے کیسے یہاں سکوت سخن شہر میں کوئی ہم زباں بھی تو ہو چاند تارے لئے کہاں ٹانکیں اپنے حصے میں آسماں بھی تو ہو میز گلدان تتلیاں کھڑکی ایسے منظر میں ایک مکاں بھی تو ہو عکس چہرے سے چھانٹنا ہے اگر ایک آئینہ درمیاں بھی تو ...

مزید پڑھیے

ہر خوشی رنج و غم پہ وار آئے

ہر خوشی رنج و غم پہ وار آئے جتنے قرضے تھے سب اتار آئے کھا کے ہر وار اپنے سینے پہ راہ و رسم وفا سنوار آئے کون دیکھے بدلتے موسم کو کب خزاں آئے کب بہار آئے آنکھیں خوشیوں سے بھیگتی ہیں ضرور جب کوئی بھولا غم گسار آئے زندگانی کا کچھ بھروسہ نہیں کون جانے کہاں پکار آئے سمجھو بیکار ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1124 سے 4657